ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ

پاکستان سے نت نئے طریقوں سے ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ

ویب ڈیسک :پاکستان سے سمگلرز نت نئے طریقوں سے ڈالرزافغانستان اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جن میں ذہنی طور پر معذور افراد کو ڈالرز کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا جارہاہے تاکہ کسٹم حکام کو ان پر شک نہ پڑے۔ اس کے علاوہ خواتین اور بزرگ افراد کے ذریعے بھی سمگلنگ کی کوشش کی جا رہی تھی سمگلرز نے یہ تکنیک بھی اپنائی ہے کہ زیادہ لوگوں کے ذریعے تھوڑی تھوڑی رقم سمگل کر رہے ہیں تاکہ پکڑے جانے کا چانس کم ہو سکے سمگلنگ کی ایک وجہ پاکستان اور افغانستان میں ڈالر کے ریٹ کا فرق ہے جس کے باعث یہاں سے سستا ڈالر خرید کر افغانستان لے جایا جاتا ہے اور مہنگا بیچا جاتا ہے۔اس کے علاوہ انڈر انوائسنگ تجارت کے لحاظ سے ڈالر کی سمگلنگ ایک اہم ترین وجہ ہے ملک بھر میں اور افغانستان سے درآمد کے لئے رسیدیں پہلے سے طے شدہ قیمت کے مطابق بنائی جاتی ہیں تاہم یہ قیمت کم طے کی جاتی ہے اور بقیہ رقم کی ادائیگی کیش سمگلنگ کے ذریعے ہوتی ہے اس کے علاوہ ایک تیسری وجہ افغانستان میں ڈالر کی مانگ میں اضافہ بھی ہے۔
چونکہ بین الاقوامی امداد کی بندش اور امریکہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے افغانستان کے اثاثے منجمد کئے گئے ہیں اس سے وہاں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے اور ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے بھی سمگلنگ کا رجحان بڑھا ہے۔ چونکہ پاکستان اور دیگر ممالک بین الاقوامی سطح پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ لینڈ لاکڈ ممالک کی درآمدات کو راستہ دیں۔ افغانستان اپنی درآمدات پاکستان اور ایران کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ میں لاتا ہے۔ تاہم اس کے بعد پاکستانی سمگلرز اسی سامان کو پہلے ٹرانزٹ کے ذریعے پہنچنے دیتے ہیں اور پھر اسے پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے۔ یہ سب ایک غیر قانونی اور بے قاعدہ تجارت ہے جہاں غیر قانونی طریقوں سے اور خاص طور پر بڑی تعداد میں نقدی کی سمگلنگ کے ذریعے رقم کی منتقلی ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق اگر کرنسی کی سمگلنگ روکنا ہے تو اس کے لئے طورخم بارڈر پر موجودہ کارگو سکینرز کو ہائی ٹیک بیگیج سکینرز سے تبدیل کرنا ہوگا۔اسی طرح سٹیٹ بینک افغانستان سے لا کر طورخم میں دکھائی گئی برآمدی رقم کو جلد جمع کرنے کے لئے ہدایات جاری کرے۔

مزید پڑھیں:  پاک افغان تجارتی معاہدہ،تجارت کو سیاست سے الگ رکھنے پر اتفاق