logo 13

سیاست نہیں ہم آہنگی کا وقت

ایک ایسے وقت میںجب ملک میں ہم آہنگی اور پوری قوم کو ملکر کورونا کی وباء اور اس سے پیدا شدہ حالات سے نمٹنے کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان بعد کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو وزیراعظم عمران خان سے ناکامی تسلیم کر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے، سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان ہم آہنگی کی فضا تو کبھی نہیں رہی، دونوں حکومتوں کے عہدیدار ایک دوسرے کیخلاف درجواب آں غزل کافی عرسے سے کرتے آرہے ہیں۔ لاک ڈائون کے سوال پر سندھ حکومت نے جب وفاقی حکومت سے سبقت لے لی اور سندھ حکومت کی میڈیا پر اس حوالے سے پذیرائی ہوئی اس کے بعد سے اب تک محاذ آرائی کی کیفیت ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پی پی پی کے چیئرمین اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشترکہ پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت پر سندھ کی مدد نہ کرنے کے الزام کو دہرانا اور وفاقی وزراء کی تنقید کا بھرپور جواب دینے کی دھمکی اپنی جگہ بلاول بھٹو کا وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ اور کنٹینر کا طنز گویا اعلان جنگ ہے۔ وفاقی حکومت کئی بار سندھ میں گورنر راج کے نفاذکی دھمکی بھی دے چکی ہے لیکن جاری سیاسی حالات میں حکومت اس قسم کے انتہائی اقدام کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سندھ میں گورنر راج کی قیمت سیاسی محاذ آرائی کا عروج اور حکومت کیخلاف حزب اختلاف کو سڑکوں پر آنے کا باعث ہوگا، بہرحال اس سے قطع نظر وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان لاک ڈائون کرنے یا نہ کرنے کا موقف اختلاف رائے سے بڑھ کر اب سیاسی محاذ آرائی کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے اور نوے کی دہائی کی سیاسی تاریخ دہرانے کا منظرنامہ بن رہا ہے۔ کئی دیگر وجوہات اور معاملات سے بھی حکومت کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، مشکل امر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ سندھ اور مرکزی حکومت وسائل، کورونا سے نمٹنے کے اسباب اور لاک ڈائون کے حوالے سے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے اور تحفظات دور کرنے کی سعی کریں کورونا سے پیدا شدہ حالات پر بھی سیاست کو حاوی کر دیا گیا ہے۔ فریقین ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیراعظم کے بیانات کے برعکس دیگر صوبوں میں بھی لاک ڈائون کی توسیع ہی کا فیصلہ ہوتا ہے لیکن وزیراعظم اسے اشرافیہ کا فیصلہ قرار دیکر اس پر تنقید کرتے ہیں، یہ واضح نہیں کہ اشرافیہ سے وزیراعظم کی مراد کیا ہے البتہ وزیراطلاعات شبلی فراز نے اس کی تشریح سندھ حکومت کردی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا کی وباء کو بطور وبا اور پوری قوم کیلئے خطرہ گردانتے ہوئے ساری صوبائی اور مرکزی حکومت کو ماہرین کی رائے کو مقدم رکھ کر متفقہ فیصلہ کرنا چاہئے، اس ضمن میں وزیراعظم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں یا پھر سندھ حکومت کے فیصلے پر تنقید کر کے اسے سیاسی مسئلہ بنا کر ایک صوبائی حکومت کو اپنے مد مقابل آنے کا موقع نہ دے۔ وزیراعظم کے اس قسم کے بیانات سے بے بسی کا تاثرپیدا ہوتا ہے اور اس ملاقات پر ان کی گرفت کے حوالے سے سوالات اُٹھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلی حکومت ہے جسے عسکری اداروں کا اعتماد حاصل ہے اور وزیراعظم خود ماضی میں حکومت اور عسکری اداروں کے ایک صفحے پر ہونے کا صریح لفظوں میں اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اس وقت ملک میں کورونا کی وباء اور اس کے بعد کے حالات میں سنگین معاشی مسائل بڑے بحران کی صورت میں سامنے کھڑے ہیں جن کا اختلافات میں گھری ہوئی حکومتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ جتنا جلد ہوسکے سندھ حکومت کے تحفظات دور کئے جائیں جبکہ وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو محاذ آرائی کی بجائے سندھ سے کورونا وباء سے پیدا شدہ حالات اور بعد میں آنے والی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں سیاسی اختلافات کا اظہار اور ایک دوسرے پر تنقید اور مورد الزام ٹھہرانا عوام کے دکھ درد اور ان کی تکالیف سے منہ موڑنے کے مترادف ہے جس کی گنجائش نہیں۔ دونوں حکومتوں کو اگر اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہو تو انہیں احساس ہوگا کہ اس قسم کی بیان بازی مناسب نہیں، بہتر ہوگا کہ بیان بازی کا سلسلہ روک دیا جائے اور کورونا کے باعث درپیش چیلنجوں سے نمٹنے پر توجہ دی جائے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے