رب ے ملاقات کا شوق رکھنے والا

رب ے ملاقات کا شوق رکھنے والا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو اللہ سے ملنا پسند کرے تو اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند فرماتے ہیں”(ترمذی)
حضرت شریح بن ہانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، ” اے ام المومنین! میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی حدیث بیان کرتے سنا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ہے تو( ہم سب تو ) ہلاک ہو گئے،” آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بے شک ہلاک ہونیوالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ساتھ ہلاک ہونے والاہے: وہ بات کیا ہے؟تو حضرت شریح نے بتلایا کہ وہ یہ ارشاد نبوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کو رب سے ملاقات ناپسند ہے تو رب کو بھی اس سے ملاقات ناپسند ہے” اور ہم میں سے ہر ایک ہی موت کو ناپسند کرتا ہے” تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ”بے شک یہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے لیکن مراد وہ نہیں جو تم نے لیا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ جب (ایک شخص پر نزع کا عالم طاری ہوتا ہے اور) اس کی آنکھیں الٹتی ہیں اور سینے میں گھونگھرو بولنے لگتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انگلیاں اینٹھن کی وجہ سے سکڑ کر’ اکڑکر’ ٹیڑھی میڑھی ہو جاتی ہیں تو جو اس وقت رب کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتے ہیں”(مسلم،کتاب الذکر)
یہ ملاقات کئی قسم پر ہے، مثلاً معاینہ اور مرنے کے بعد جی اٹھنا، کہ ملاقات کی ایک قسم یہ ہے کہ جس کا بیان اس ارشاد باری تعالیٰ میں ہے:
” جن لوگوں نے خدا کے روبرو حاضر ہونے کو جھٹلایا ”
اور ملاقات کی ایک قسم موت ہے کہ جس کا بیان اس ارشاد خداوندی میں ہے۔
” جو شخص خدا کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو خدا کا (مقرر کیا ہوا) وقت ضرور آنیوالا ہے”
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” کہہ دو کہ موت جس سے تم گریز کرتے ہو وہ تمہارے سامنے آ کر رہے گی ”
مذکورہ بالا حدیث میں جس کراہت کا اعتبار ہے اس سے وہ کراہت مراد ہے جو عالم نزع کے وقت ہو جس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس وقت آدمی کو جنت کی ان نعمتوں کی زیارت کرائی جاتی ہے جو اس کے لیے تیار کی گئی ہوتی ہیں۔ تو نیک بخت لوگ رب سے ملاقات کا اشتیاق کرنے لگتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ بھی ان سے ملاقات کو پسند فرمانے لگتے ہیں۔(اللہ کو کیا پسند کیا نا پسند)

مزید پڑھیں:  پاک ایران صدور ملاقات، غزہ کی صورتحال پر تشویش کااظہار