3 81

گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

ہر ایک کے اپنے اپنے سچ ہیں کیونکہ جھوٹ کے دعویدار تو کہیں نظر نہیں آتے البتہ جو لوگ اپنے سچ پر اڑے ہوئے ہیں ان کے دعوئوں میں بھی بعد المشرقین واضح نظر آجاتا ہے’ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے مشیر اطلاعات کا عہدہ واپس ہوا تو ایک جانب میڈیا پر بحث چھڑ گئی تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر ”ماہرین” اپنی اپنی دور کی کوڑی لائے اور اپنے تبصروں سے فضا آلودہ کردی۔ ایسے با خبر بھی تھے جو بیک وقت جہاں مختلف چینلز پر اظہار خیال میں ایک رائے ظاہر کر رہے تھے تو دوسری جانب اپنے سوشل میڈیا(ذاتی) چینل پر مزید اندر کی معلومات میں کچھ اور طرح اطلاعات دے رہے تھے’ پھر بھی آج کل بعض چینل مالکان کے حوالے سے اس دعوے پر بڑی لے دے ہو رہی ہے کہ بغیر جھوٹ کے چینل نہیں چلائے جاسکتے۔ خیر جانے دیجئے’ اصل مسئلہ بی بی فردوس عاشق اعوان کی برطرفی کا تھا جس کی اندرونی کہانی میں تضادات کی بھرمار تھی اور تکدر کی اس فضا میں اگرچہ ابتداء میں محترمہ نے خاموشی کی بکل اوڑھ کر عقلمندی کا اظہار یہ کہہ کر کیا کہ کپتان کو اختیار ہے کہ وہ جس کھلاڑی کو جہاں چاہے کھیلنے کا حکم دے سکتا ہے’ غالباً انہیں یقین تھا کہ انہیں کوئی اور منصب سونپ دیا جائے گا اس لئے فوری طورپر سخت ری ایکشن دینے سے بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے مگر جب بعد میں آنے والی بعض اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے موصوفہ کا فون سننے سے بھی انکار کردیا تھا چہ جائیکہ ”آخری” ملاقات کی کوئی تصویر ہی میڈیا پر دکھانے کی ان کی خواہش ہی پوری کی جاسکتی جس سے انہیں سیاسی طور پر فیس سیونگ کا موقعہ ملتا’ یوں ان کی نااُمیدی مرزا غالب کے امید و بیم والے شعر کی مانند ہوگئی تو ان کی اندر کی تلخی باہر اُمڈ آئی اور انہوں نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے موصوفہ کو اپنے منصب سے خود مستعفی ہونے کا کہا’ بصورت دیگر انہیں ڈی نوٹیفائی بھی کیا جاسکتا ہے’ نظر بہ ظاہر تو ڈاکٹر عاشق اعوان نے پرنسپل سیکرٹری پر سارا ملبہ گرانے کی کوشش کی ہے اور بقول شیخ رشید احمد موصوفہ کہہ اُٹھیں کہ ”مجھے کیوں نکالا؟” تاہم دیکھا جائے تو اعظم خان نے اگر واقعی ایسا کیا ہے توانہوں نے ڈاکٹر صاحبہ کیساتھ نیکی کی ہے’ یعنی موصوفہ کو اگر ڈی نوٹیفائی کردیا جاتا تو ان کی کیا عزت رہ جاتی جبکہ خود استعفیٰ دینے سے ان کی عزت بھی رہ گئی تھی مگر بقول شخصے جب کسی کو خود اپنی ہی عزت پیاری نہ ہو تواس سے ایسی حرکتیں سرزد ہو جایا کرتی ہیں جس سے خود اپنی ہی بھد اڑتی محسوس ہوتی ہو۔ ادھر سوشل میڈیا پر موصوفہ کا وہ تاریخی بیان یعنی کلپ ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں ان کے پیپلز پارٹی کے دور وزارت کے دنوں میں انہوں نے کہا تھا کہ جو پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جاتا ہے وہ خود ”نشان عبرت” بن جاتا ہے۔ ان کے اصل الفاظ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ہم نے تو مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی ہے’ اس کلپ پر طرح طرح کے تبصرے ان کی موجودہ حالت پر خاصے چشم کشا ہیں’ بقول فیض احمد فیض
حضورِ یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
نااُمیدی کی جس کیفیت کا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو سامنا ہے اس سے قطع نظر کم ازکم ایک بات سے اتفاق کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ان پر یہ جو الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے میڈیا کو جاری ہونے والے اشتہارات میں دس فیصد کمیشن طلب کی تھی حالانکہ بعض من چلوں نے سوشل میڈیا پر اس الزام کو بھی ان کی سابقہ سیاسی جماعت یعنی پیپلز پارٹی کے شریک سربراہ کے ٹین پرسنٹ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے تاہم ان الزام کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا جاسکا’ اس لئے جب تک اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہ آسکے اس قسم کے الزامات کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی البتہ جہاں تک دیگر الزامات یعنی تین تین گاڑیوں کا استعمال جس کا انہیں حق نہیں تھا کے حوالے سے الزام کی بات ہے تو یہاں دو سوال اُٹھتے ہیں’ ایک تو یہ کہ جب انہیں صرف ایک ہی گاڑی کا حق تھا تو جن سرکاری حکام نے انہیں تین گاڑیاں سپرد کیں انہوں نے کیا تحریری طور پر انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی؟ اگر کی اور پھر بھی نہیں مانیں تو کیا اس کی اطلاع اوپر تک بھجوائی؟ تاکہ وہ بری الذمہ ہوجاتے۔ اگر پھر بھی وہ باز نہیں آئیں تو ان کی ذمہ داری ضرور بن جاتی ہے اور اگر مجاز اتھارٹی نے نہیں روکا تو موصوفہ کیساتھ متعلقہ حکام کیخلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ مگر ہمارے ہاں کا یہ دستور نرالہ ہے کہ آگے سے مچھر کو گزرنے نہیں دیا جاتا’ پیچھے سے بے شک ہاتھی گزر جائے’ رہی پی ٹی وی اور ریڈیو میں ناجائز بھرتیوں کی تو یہ بھی کئی نئی بات نہیں’ کون صاحب اقتدار ہوتا ہے جو ایسی حرکتیں نہیں کرتا’ پیپلز پارٹی کے دور میں ایک وفاقی وزیر نے اسی قسم کے اقدامات کو جب پارٹی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کیخلاف عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا یا تو انہوں نے کہا کہ ہاں مجھے جس حلقے کے عوام نے ووٹ دیکر وزیر بنوایا ان کا مجھ پر حق بنتا تھا’ آئندہ موقع ملا تو پھر بھی ایسا کروں گا۔ بقول عابد ملک
ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہوگا
یہ وہ ہجوم ہے جو مشتعل نہیں ہوگا
اندھیرا پوچنے والوں نے فیصلہ دیا
چراغ اب کسی شب میں مخل نہیں ہوگا

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان