رمضان المبارک کے قیمتی شب وروز ہیں، برکتوں والا یہ مہینہ ہر سال اُمت مسلمہ کیلئے بہت بڑی نعمت کے طور پر آتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رمضان المبارک کو بڑے اہتمام کیساتھ گزارتے ہیں، ہمارے نانا جان جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تھا تو بڑے ذوق وشوق کیساتھ عبادات کیلئے لنگر لنگوٹ کس کر تیار ہوجاتے تھے، تراویح کا اہتمام باجماعت نمازی تو وہ پہلے سے تھے مگر رمضان میں بہت کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے، اکثر کہتے تھے کہ اس مہینے میں عبادات کیساتھ ساتھ اپنے غریب بہن بھائیوں، دوستوں اور پڑوسیوں کا بھی بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیک اعمال کا ثواب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ خیر یہ تو اس زمانے کا عام معمول تھا تقریباً سارے بزرگ ہی اسی طرح کیا کرتے تھے آج بھی لوگ رمضان المبارک میں عبادات کا اہتمام کرتے ہیں لیکن وہ ذوق وشوق ناپید ہے جو ان بزرگوں کا خاصا تھا۔ ہم رمضان کے آخری عشرے میں اپنے نانا جان سے کہتے حاجی صاحب روزے تو بس اب چند دنوں کے مہمان ہیں تو یقین کیجئے وہ بلک بلک کر رونا شروع کر دیتے، اتنا روتے کہ ان کی ہچکی بندھ جاتی، پھر ہمیں کہتے بے وقوف انسان تمہیں اتنی سمجھ نہیں ہے کہ روزے تو ہر سال آتے ہیں اور آتے رہیں گے بس ہم نہیں ہوں گے یہ جو وقت ہمیں ملا ہے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اس زمانے میں رمضان کے آخری جمعے میں بہت سی مساجد میں نماز جمعہ کے بعد الوداع اے ماہ رمضان الوداع پڑھاجاتا۔ لوگ رمضان کی رخصتی پر پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے کیا زمانہ تھا کیا لوگ تھے! ہماری بدقسمتی اور کم بختی کہئے کہ اس مرتبہ رمضان المبارک میں ہمیں کرونا وبا کا سامنا ہے جس میں دوریاں ہی دوریاں ہیں لوگ خوفزدہ ہیں مساجد میں نمازیوں کا وہ ہجوم دیکھنے میں نہیں آرہا سب کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ہمارا تو یہی خیال ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اپنے شامت اعمال کا شاخسانہ ہے، ہم اپنے خالق کو مکمل طور پر بھلا چکے ہیں، دکھ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ اتنی بڑی وبا اور کثرت سے اموات کے باوجود بھی ہمارے رویوں، اخلاق وکردار میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ماہ صیام کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے اللہ کریم اس مقدس مہینے میں اپنے بندوں پر انعام واکرام کی بارشیں برساتا ہے یہ تو لوٹ مار کا مہینہ ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آگے بڑھ کر ثواب کماتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پوری پوری زکواة ادا کرتے ہیں، صدقہ وخیرات کا اہتمام کرتے ہیں، ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے نام پر زیادہ سے زیادہ مال خرچ کریں، ان سب باتوں کیساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ آمدنی میں حرام مال کا شائبہ بھی نہ وہ اس بات سے باخبر ہوتے ہیں کہ اللہ اپنی راہ میں حلال مال ہی قبول کرتا ہے اور حلال مال پر ہی حساب ہوگا۔ حرام مال پر حساب نہیں صرف اور صرف عذاب ہوگا لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے! روزہ داروں کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ جیسے ہی رمضان المبارک شروع ہوتا ہے وہ نماز اور تراویح بڑے اہتمام کیساتھ پڑھتے ہیں ہاتھ میں ایک لمبی سی تسبیح بھی ہر وقت نظر آتی ہے لیکن جیسے جیسے رمضان قریب آنے لگتا ہے ان کے گوداموں میں اجناس ذخیرہ ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ رمضان میں ان اجناس کی ضرورت زیادہ ہوگی اور اس ذخیرہ اندوزی سے ہم خوب مال کمائیں گے، وہ ذخیرہ اندوزوں کے انجام کے حوالے سے ایک لمحے لئے بھی نہیں سوچتے بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے اپنے قبیح عمل کو درست ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں سال کے گیارہ مہینے جو خوردنی اشیاء میں ملاوٹ کا مکروہ دھندا کرتے ہیں وہ رمضان میں کب رکتے ہیں؟ منہ میں روزہ ہاتھ میں تسبیح نماز کی اپنے وقت پر ادائیگی لیکن اس بات کی چنداں پرواہ نہیں کہ رسول پاکۖ نے فرمایا ہے کہ ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے! وہ اپنے دل کی جھوٹی تسلی کیلئے اس ملاوٹ کو بھی کاروبار کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسے صحیح ثابت کرنے کیلئے انہوں نے بہت سے اوٹ پٹانگ قسم کے دلائل ایجاد کر رکھے ہوتے ہیں اور انہیں وقتاً فوقتاً کام میں لاتے رہتے ہیں۔ یہ وہ بدقسمت لوگ ہوتے ہیں جو صرف اور صرف اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں ان کی کمائی، ان کا مال ان کے کسی کام نہیں آتا۔ پہلے تو انہیں صدقہ وخیرات کی توفیق ہی نہیں ہوتی اور اگر یہ دل کی تسلی کیلئے اللہ پاک کے نام پر کچھ دیتے بھی ہیں تو ملاوٹ شدہ اشیاء بیچنے والوں، جعلی دوائیوں کا کاروبار کرنے والوں، رشوت لینے والوں اور ذخیرہ اندوزوں کے صدقات وخیرات کب قبول ہوتے ہیں؟ ان کی قبولیت کیلئے تو حلال مال کی شرط ہے! روزہ داروں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو بڑے اہتمام سے سحری کرتے ہیں، اسی طرح افطار بھی بڑے شاندار طریقے سے کرتے ہیں بس روزہ نہیں رکھتے ان کے سحر وافطار دیکھ کر ان کے پڑوسیوں کو گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ حضرت روزے سے نہیں ہیں، اچھا کون ہے اور برا کون؟ میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کس کا عمل مقبول ہے اور کس کا عمل نامقبول؟ سب کچھ وہی جانتا ہے! ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اللہ کریم کی نعمتیں سب کیلئے یکساں ہوتی ہیں سورج سب پر چمکتا ہے دریا کا پانی سب کو ملتا ہے، پھول کی خوشبو سب سونگھتے ہیں، اسی طرح رمضان المبارک سب کیلئے اپنی برکات لیکر آتا ہے اب یہ ہم پر ہے کہ کون آگے بڑھ کر ان برکات سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے؟