5 79

ذرا فاصلے سے ملا کرو

پہاڑ دور سے اچھا لگتا ہے یا پہاڑ دور سے مزہ کرتا ہے۔ یہ دونوں جملے فقرے محاورے یا ضرب الامثال ایک ہی خیال نظریہ بات یا مضمون کا اظہار کرتے ہیں اور ان میں ان دوریوں کی مجبوریوں کا حسن چھلکتا نظر آتا ہے جو آج کل ‘کورونا وائرس’ کے حملہ کے خوف کی صورت میں ہم سب ہی میں نہیں پوری دنیا کے لوگوں میں در آیا ہے۔ اپنے آپ کو ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر رکھو کہ یہ ناہنجار وائرس آسانی سے ایک دوسرے میں منتقل نہ ہوسکے اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوگیا تو سمجھئے کہ اس سے بچنا اتنا آسان نہیں کہ تا دم تحریر اس کا کوئی موثر کیا سرے سے علاج ہی دریافت نہیں ہوا
اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
لیکن یہ خاموش دشمن انسان کے جسم میں ناک منہ یا آنکھوں کے راستے داخل ہوکر سیدھا دل پر حملہ آور نہیں ہوتا ناک گلے اور سانس کی نالی کے بعد پھیپھڑے اس کا تر نوالہ بنتے ہیں اور یوں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے والا مریض دورویوں اور فاصلوں کا احترام نہ کرنے کی پاداش میں نزلہ زکام کھانسی اور سانس یا دمہ کی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یوں اللہ بچائے وہ دم گھٹنے کی وجہ سے اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے اور یوں
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کے مصداق وہ نصیب دشمناں اس دنیا سے حرف غلط کی طر ح مٹ جاتا ہے، اس لئے جب جہاں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے دستیاب ذرائع ابلاغ کی مدد سے دکھوں دردوں اور غموں کی دنیا میں جینے والوں کو بار بار تلقین کی جاتی ہے کہ عہد حاضر کے اس تباہ کن موذی سے جان کی امان پانے کیلئے جہاں جراثیم کش صابن سے بار بار ہاتھ دھوتے رہنا ضروری ہے وہاں منہ اور ناک پر ماسک چڑھائے رکھنے کے علاوہ ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنا بھی ناگزیر ہے، یہ ایک دوسرے سے دور رہنے یا اپنے اپنے ٹھکانوں پر مقید ہوکر بیٹھے رہنے کی نصیحت پر عمل کرنے کا خمیازہ ہے کہ آج کا ہماری گلیاں اور بازار سنسان ہوچکی ہیں، لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں، معیشت کو بے حد وحساب نقصان پہنچ رہا ہے اور نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی جہاں ہر وقت گہما گہمی اور چہل پہل جاری رہتی تھی خوف سراسیمگی اور ہو کا سا عالم ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ کرونا کا عذاب یا کرۂ ارض پر بسنے والوں کیلئے کڑا امتحان موت حیات کی کشمکش کا دہشت ناک پیغام بن کر ان کے سرو ں پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے، حالات کی پیدا کی ہوئی دوریوں کی یہ مجبوریاں انتہائے محبت کے ان سلسلوں کی نفی کررہی ہیں جن کو ہجر فراق کا نام دیا جاتا رہا ہے
وصال یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی
کسی زمانے میں دوریوں کی مجبوریوں کو پاٹنے والے ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آنے کی کیفیت کا اظہار کرنے کیلئے کہا کرتے تھے کہ
من تو شدم، تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
کرونا وائرس کی وباء کے اس زہریلے دور میں ایک دوسرے کے قریب آنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اس لئے نہ کوئی ایسی باتیں کرسکتا ہے نہ ایسی کوئی حرکت کرنے کی کوشش، لیکن حق راستی تو یہ بھی ہے ہم اپنے گھر کے کمرے میں بند رہ کر بھی سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں کے ذریعہ آپس میں سچی جھوٹی محبتیں بانٹنے کیلئے جڑے رہتے ہیں جو ہماری دوریوں کی مجبوریوں کے احساس کو ختم کردیتا ہے، کہنے کو تو ہم اپنے اپنے گھروں میں خود ساختہ یا ذاتی قرنطینہ اور سیلف آسولیشن قائم کرنے کی غرض سے مقید ہوکر رہ گئے ہیں لیکن کیا مجال جو ہم اپنے آپ کو کسی گوشہ تنہائی میں محسوس کرتے ہوں، جس کو ہم سماجی دوری کا نام دیتے ہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹوں نے اس کے معنی اور مفہوم بدل کر رکھ دئیے ہیں، اگر ہم کو انٹرنیٹ جیسی سہولت میسر ہے تو ہم اپنے موبائیل سیٹ، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ یا اس قبیل کی کسی دوسری سہولت یا ڈوائس کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں موجود کسی فرد یا افراد کے گروہ سے بات چیت کرسکتے ہیں اسکرین پر اس کی حرکات وسکنات یا ویڈیو کو دیکھ سکتے ہیں، اس کے اچھے اور برے حالات سے باخبر رہ سکتے ہیں اور اسی طرح وہ ہماری حالت زار سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے، ٹیکنالوجی کے اس ہی کمال نے ہم سب کو تنہائی کے دکھ برداشت کرنے کی ضرورت محسوس ہونے نہیں دی، ہم وہ زمانہ بھول نہیں سکتے جب اخبار میں ایک آدھ خبر چھپوانے کیلئے اسے کاغذ پر لکھ کر بنفس نفیس میلوں کا سفر کرکے اخبار کے دفتر میں پہنچا کرتے تھے، اب یہی کام ہم اپنے گھر کے کمرے میں لیب ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر بڑی آسانی سے کرلیتے ہیں، ایک آدھ خبر کیا کتابوں کی کتابیں اور دفتروں کے دفتر کمپوز کرکے بذریعہ ای میل منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں اور آناً فاناً جواب بھی پالیتے ہیں، جب ہم گھر بیٹھے آن لائن شاپنگ کر سکتے ہیں، کسی کو رقم یا تحفہ بھجوا سکتے ہیں، پیسے منگوا سکتے ہیں تو پھر ضرورت کیا رہی کسی سے ہاتھ ملانے یا گلے ملکر من تو شدم تو من شدی کے راگ الاپنے کی کہ لدھ گیا ہے حضرت امیر خسرو کے راگ الاپ کا زمانہ کہ
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا، جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

مزید پڑھیں:  عقیدۂ ختم ِنبوت اور ہماری ذمہ داری