گورنر سیکرٹریٹ سیاست کا اہم مرکز بن گیا

گورنر سیکرٹریٹ سیاست کا اہم مرکز بن گیا

(زاہد میروخیل) ملک میں سیاسی اور معاشی بحرانوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا سب سے بڑا چیلنج سر اٹھائے کھڑا ہے سیاسی تقسیم اور گالم گلوچ کی وجہ سے ان اہم مسائل کے بارے میں عوام کو مثبت خبریں نہیں مل رہی ہیں افغانستان سے ملحقہ ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا اس دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے بلکہ حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں بھی ایک ناکام حملہ کیا گیا ہے یہ تمام مسائل سیاست سے جڑے ہوئے ہیں اور پارلیمنٹ میں ہی اس کا حل تجویز کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے اس کے بغیر کوئی دوسرا حل ملک کو مزید مسائل سے دوچار کرے گا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر احمد شاہ کا چند روز قبل نیول اکیڈمی کراچی میں پاسنگ آئوٹ تقریب میں خطاب خطاب کا لب لباب بھی یہی تھا کہ سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ مسئلے کا حل نکالنا ہو گا، موجودہ وقت میں جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کو چھوڑ کرباقی تمام سیاسی جماعتیں اتحادی حکومت میں شامل ہیں، حکومت سے باہر یہ دونوں جماعتیں بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور ان پارٹیوں کے ارکان قومی اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں ملک میں صرف پی ٹی آئی پارلیمانی سیاست سے باہر ہے اس تناظرمیں آرمی چیف کا پیغام دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ پی ٹی آئی کو پارلیمان میں واپس آنے کیلئے دیکھا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان کی جانب سے الیکشن کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے
اپریل میں قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کے بعد سے پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی نہیں جا رہے ہیں اور سپیکر قومی اسمبلی کو استعفوں کی اجتماعی منظوری کا مطالبہ کر رہے ہیں، عمران خان کے چند قریبی ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی کے تقریباً37ارکان قومی اسمبلی استعفوںکی منظوری کے حق میں نہیں ہیں اور بدستور سرکاری مراعات کا استحقاق انہیں حاصل ہیں اس وجہ سے پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اپنے ارکان اسمبلی کو فوری طور پر پارلیمنٹ لاجز کی رہائش گاہیں خالی کرنے کا حکم دیا ہے یہ حکم ان تمام پی ٹی آئی ایم این ایز کیلئے ایک چیلنج ہے جو استعفوں کیلئے جواز تلاش کر رہے ہیں اس لئے پی ٹی آئی کی کشتی سے ایم این ایز نے چھلانگیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ ارباب نورعالم کے منحرف ہونے کے بعد پشاور سے رکن قومی اسمبلی ناصرخان موسیٰ زئی نے بھی پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا ہے یہ نقب جے یو آئی نے لگائی ہے اور چند روز میں منحرف رکن قومی اسمبلی جے یو آئی میں شامل ہونے جا رہے ہیں
خیبر پختونخوا کے ممبران اسمبلی بھی جے یو آئی میں شامل ہو رہے ہیں یوں تو گذشتہ برس اپریل کے دوران اسلام آباد میں عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے قومی سیاسی جماعتوں کی سرخیلی کے بعد جمعیت علماء اسلام پاکستان کی ملکی سیاست میں کامیاب واپسی ہوئی تھی اس منظر نامے پر بنے رہنے کیلئے جے یو آئی اب دوبارہ سرگرم ہوگئی ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے، سابق سینیٹر غلام علی کو گورنر بنانے کے بعد گورنر سیکرٹریٹ سیاست کا ایک اہم مرکز بن گیا ہے سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق صوبائی حکومت کے ترمیمی بل کو متنازع بنا کر دونوں جانب سے چند روز تک تند و تیز بیانات میڈیا میں لوگوں کے سامنے آئے، تازہ اقدام کے طور پر اتوار کے روز پشاور میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں جے یو آئی نے پی ٹی آئی کو چارج شیٹ کیا ہے، صوبہ میں امن و امان اور بھتہ خوری میں اضافہ کیخلاف بلائی گئی اس آل پارٹی کانفرنس کا اعلامیہ زیادہ تر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے گرد گھوم رہا ہے امن و امان کیلئے ٹارگٹ آپریشن یا کوئی دوسرا حل تجویز کرنے کی بجائے کانفرنس میں شامل سیاسی جماعتوں کو صوبائی حکومت کی پالیسیوں پر بریفنگ دی گئی اور کرپشن کیخلاف کارروائی کا مطالبہ سامنے آیا اس کانفرنس میں پی ٹی آئی بطور جماعت شامل نہیں تھی
اس لئے ان الزامات کا دفاع مذکورہ فورم پر نہیں کیا گیا اور تمام جماعتوں کے نمائندوں اور سربراہان نے اس اعلامیہ پر دستخط کئے ہیں، خیبر پختونخوا اسمبلی میں عددی اکثریت کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کو موجودہ حکومت گرانا جوئے شیر لانے کے مترادف معلوم ہو رہا ہے جے یو آئی کے حوالے سے دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے45ارکان اسمبلی منحرف ہونے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن یہ افواہیں ہیں گنتی کے چند ارکان صوبائی اسمبلی کے علاوہ پی ٹی آئی سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے زیادہ ممبران نہیں ہوں گے اس لئے پی ٹی آئی کو الیکشن میں متاثر کرنے کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے خیبر پختونخوا میں کرپشن اور بدانتظامی کے بارے میں چرچا کرنے کی منصوبہ بندی نظر آرہی ہے اس قسم کی آوازوں میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے منحرف ممبران اسمبلی کی آوازیں بھی شامل ہوں گی چند روز میں خیبر پختونخوا کی سیاست میں ہوش ربا انکشافات سامنے آنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کی حکومت گرانا پی ڈی ایم اور اپوزیشن جماعتوں کیلئے نقصان کا سودا ہے اس کیلئے بہت سے وسائل کی ضرورت کے علاوہ پارٹیوںکے درمیان ٹوٹ پھوٹ کا بھی خدشہ ہے اس تناظر میں جے یو آئی اور دیگر سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کے اندرونی خلفشار کے انتظار میں ہیں یہ عمل ہو گا تو پی ٹی آئی کی اندر کی باتیں سامنے آئیں گی اور اگلے عام الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کیلئے عمران خان مخالف بیانیہ بنانے میں مشکلات نہیں ہوں گی بلکہ قومی اور مقامی سطح کے لیڈر ہر فورم پر پی ٹی آئی کے منحرف ارکان اسمبلی کے بیانات اور الزامات کو عوام میں دہرا کر اپنے لئے ہمدردیاں اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے موجودہ حالات کے مطابق آئندہ کئی مہینوں تک پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ کرنے کی مہم جوئی کے ساتھ بی آر ٹی، مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور دیگر کئی زیر التوا بڑے محکمہ جاتی مقدمات بھی انجام کو پہنچانے کے مطالبات سامنے آئیں گے اور ان مقدمات پر حتمی کارروائی کیلئے وفاقی حکومت اور احتساب اداروں پر عام الیکشن تک دبائو برقرار رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  لکی مروت :قومی جرگہ کے رکن ادریس خان کی گاڑی پر فائرنگ