سیاسی و معاشی بحران

(مشتاق احمدشباب )ملک کی حالت کیا ہو رہی ہے اور اصل معاملات کیا ہیں ‘ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے سیاسی رہنماء اب بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں ‘ صرف ذاتی مفادات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے
مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر کے نامور سیاسی رہنما تھے ‘ انہوں نے کہا تھا ‘ ”سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا”۔ ان کی بات کو سو فیصد سے بھی زیادہ درست قرار دیا جا سکتا ہے’ آج کے ایک دانشور خورشید ندیم نے اس میں تھوڑا سا اضافہ کرکے گویا سونے پر سہاگہ والی کیفیت یہ کہہ کر پیدا کی ہے کہ ”سیاست کی آنکھ میں شرم بھی نہیں ہوتی” اور جب ہم موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ان دونوں آراء کو پرکھتے ہیں تو ان کی حقانیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے’ ابھی نئے سال کا آغاز ہوا ہی ہے کہ سیاسی بیان بازیوں نے ایک عجیب کیفیت کے تانے بانے بننا شروع کر دیئے ہیں ‘ ملک کی حالت کیا ہو رہی ہے اور اصل معاملات کیا ہیں ‘ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے سیاسی رہنماء اب بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں ‘ صرف ذاتی مفادات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے ‘ گویا مرزا محمود سرحدی مرحوم کے اندازمیں کہا جا سکتا ہے کہ دھمکیوں پر دھمکیاں ہیں ان دنوں’ جی ہاں دھمکیوں کا آغاز کرتے ہوئے ایم کیو ایم ایک بار پھرلنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر آئی ہے اور کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر ان کی بات کو نظرانداز کرنے کی”پاداش” میں حکومت سے علیحدگی کی تڑی لگا دی ہے’ یہ ایم کیو ایم کی سیاست میں کوئی نئی بات نہیں ہے’ بلکہ اس نے ہمیشہ سیاسی بلیک میلنگ کے لئے یہی وتیرہ اختیار کئے رکھا ہے ‘ اور جب تک الطاف حسین کی قیادت میں متحدہ قومی مومنٹ واقعی متحد تھی تو اس کا جادو سرچڑھ کر بولتا تھا تاہم جب سے اس جماعت کے ٹکڑے ہوئے ہیں اس کا وہ دم خم تو نہیں رہا مگر بطور پریشرگروپ اب بھی اپنی کچھ نہ کچھ وقعت رکھتی ہے اور اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ سال کے آخری دنوں میں(شاید کہیںسے اشارہ پا کر) مختلف دھڑوں کے اندر ایک بار پھر متحد ہونے کی آرزوئیں مچل رہی ہیں ‘ اس کے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے حلقہ بندیوں کی درستی کے معاملے پر15جنوری کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے ایم کیو ایم نے (بصورت دیگر) حکومتی اتحاد سے الگ (؟) ہونے کا اعلان کر دیا ہے’ اس پر ظاہر ہے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ جانا فطری امرہے ‘ سو وزیر اعظم شہباز شریف نے آصف علی زداری سے رابطہ کرکے صورتحال کو تھامنے کی درخواست کی ہے یعنی بقول شاعر”اے مری ہم رقص مجھ کو تھاملے”اور آج جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے ‘ سردار ایاز صادق کراچی پہنچ چکے ہوں گے ‘ سو دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اگرچہ یہ بے چارہ”سیاسی اونٹ” اسلام آباد میں بھی پریشانی سے دوچار رہا ہے کہ اپنی کونسی کل سیدھی کرے کہ اللہ کی اس مخلوق کی کوئی کل سیدھی ہے ہی نہیں ‘ اسلام آباد میں وہاں کے ہائی کورٹ نے گزشتہ روز صرف 24گھنٹے کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کا حکم دے کر الیکشن کمیشن کو امتحان میں ڈال دیا تھا ‘ جو عملاً ممکن تھا ہی نہیں ‘ کیونکہ ان چند گھنٹوں کے اندر انتظامات کرنا جان جوکھم میں ڈالنے والی بات تھی ‘ اس سے تحریک انصاف نے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ( یعنی میڈیائی اطلاعات کے مطابق) چند درجن لوگ ضرور پہنچا دیئے تھے جس سے سرکار کے لئے ”پریشانی کی کیفیت” پیدا ہوئی اور تحریک کے رہنماء سارا دن بیانات داغ کر حکومت کوان بلدیاتی ا نتخابات سے ”بھاگنے”کے طعنے دیتے رہے ‘ حالانکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابات کو دوسال تک خود تحریک انصاف کی حکومت نے ملتوی کئے رکھا، گویا انتخابات سے بھاگنے میں دونوں(سابق اورموجودہ) حکومتیں برابر کی شریک ہیں مگر وہ جو سیانے کہتے ہیں کہ دوسرے کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کرنے والے کوباقی کی تین انگلیاں نظر ہی نہیں آتیں جو خود اس کی جانب ہوتی ہیں ‘ ادھر ایک جانب تحریک کے ایک مقامی رہنما نے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دے دی ہے’ سرکار نے الیکشن اتنے مختصرترین وقت میںالیکشن کمیشن کے ساتھ مل کراسلام آباد سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف درخواست دے دی اور صدر مملکت نے بلدیاتی انتخابات ترمیمی بل بغیر دستخط کے واپس کر دیا ‘ گویا ایک عجیب گھرمچ کی سی صورتحال بن گئی ہے سو دیکھتے ہیں کہ معاملہ کدھر کو جاتا ہے ۔ گویا الٹا عدالت ہی اب یہ فیصلہ کرے گی کہ کس کی بات مان لی جائے ۔ کہ بقول ناز مظفر آبادی
بلا کا زور تھا حالات کے تنائو میں
کئے نہ ہم نے مگر فیصلے دبائو میں
اس ساری سیاسی افراتفری میں جمعیت علماء اسلام کی آل پارٹیز کانفرنس نے ایک نیاکٹا کھول دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے کرپشن کیسز کھولے جائیں ‘ بی آرٹی ‘ مالم جبہ ‘ آٹا ‘ چینی سکینڈلز اور فارن فنڈنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے’ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ‘ ہیلی کاپٹر بل عمران کو بچانے کے لئے لایاگیا، دوسری جانب فرزند راولپنڈی شیخ رشید نے حسب عادت ایک نیا بیان داغ دیا ہے اورکہا ہے کہ ملک انتہائی نازک موڑ پر ہے 120 دن اہم ہیں ‘ جہاں تک شیخ صاحب کے ”اہم دن” والے بیانات کا تعلق ہے ان کے گزشتہ چار سال کے دوران(حکومت میں ہوتے اورحکومت سے باہر نکلنے کے بعد ) اس قسم کے بیانات کی ایک پوری سیریز گوگل پر موجود ہے دراصل بے چارے کو بعض واقفان حال کے مطابق جب سے گیٹ نمبر چار سے چھٹی ملی ہے تب سے وہ خود کو سیاسی طور پر زندہ اور فعال رکھنے کے لئے بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کر پا رہے مسئلہ یہ ہے کہ جب تک وہ وزیر باتدبیر تھے تب تک اکثر ٹی وی چینلز ان کی بلائیں لیتے اور ان کے زبان دانی کے چرچے عام تھے یعنی سیاسی مخالفین کے خلاف ان کی گل افشانی گفتار سے سیاسی ماحول کو پھلجڑیاں مہیا کرکے عوام کوخوش گمانی میںمبتلا کرتے رہتے تھے مگر بقول ان شاء اللہ خان انشائ
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
یعنی پھرتے ہیں میرخوارکوئی پوچھتا نہیں ‘ ایسے میںخود کوزبردستی سیاسی میدان میں’ ‘ ان” رکھنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ بس بولتے رہو ‘ یعنی بقول فیض احمد فیض بول کہ لب آزاد ہیں تیرے کچھ یہی حالت چوہدری فواد حسین کی بھی ہے ‘ ان کے بیانات بھی اپنے سیاسی رقیبوں سے زیادہ خود ان کو ”آشکار” کر رہے ہیں ہماری سوچی سمجھی رائے تو یہ ہے کہ اس میں کسی اورکا نہیں خود لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا قصور ہے جنہوں نے ان دونوں کو (ان کی مبینہ خواہش اورکوشش کے باوجود) راندہ درگاہ بنا کر رکھا اور اپنی صفوں میں واپس نہ آنے دیا ‘ جس کے بعد ان کی زبانوں کے ”ناگ” دونوں جماعتوں کی قیادت کے خلاف پھنکارتے ہوئے ڈسنے سے بازنہیں آئیں’ اب اس”محرومی” کے بعد یہ بے چارے کیا کریں؟ بقول یار طرحدار امجد بہزاد
جس نے بھی کی ہے اپنی ضرورت کی بات کی
ہم نے تیرے حضور محبت کی بات کی
آخر کو خود کلام ہی ہونا پڑا ہمیں
دنیا نے جب بھی کی ہے سیاست کی بات کی

مزید پڑھیں:  شدید بارش سے124فیڈرز ٹرپ ،پشاور سمیت متعدد علاقوں میں بجلی کی ترسیل متاثر