پنجاب میں”چل”کیا رہا ہے ؟

وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے اعتماد کے ووٹ کے لئے گورنر بلیغ الرحمن کے حکم کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اعتماد کا ووٹ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غیرذمہ دارانہ بیانات دینے سے گریز کریں۔ ادھر پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ پرویزالٰہی اعتماد کا ووٹ لیں یا نہ لیں دونوں صورتوں میں اپنے منصب پر نہیں رہیں گے۔ عمران خان کا اسمبلیاں توڑنے کااعلان صرف کاغذوں میں ہی رہ جائے گا۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ وزیراعلی پنجاب عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی اور بالخصوص سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف سخت مخالفانہ موقف اور ان پر الزامات سے نالاں ہیں۔ غالبا اسی وجہ سے انہوں نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کی قیادت کو غیرذمہ دارانہ بیانات سے اجنتاب کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو 25مئی نہیں بھولنا چاہیے۔ پرویزالٰہی کے مذکورہ بیان پر تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے قدیم حلیف گجرات کے چودھری خاندان کے لئے سیاست میں ایک حد سے آگے جانا خصوصا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کے ساتھ سیاسی طور پر کھڑا ہونا ممکن نہیں۔ ق لیگ اور چودھری خاندان میں اس اختلاف کی وجہ پرویزالٰہی کے صاحبزادے اور ان کے سیاسی جانشین مونس الٰہی کو قرار دیا جارہا ہے مگر فی الوقت اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ کیا چودھری خاندان پھر سے متحد ہونے جارہا ہے اور ق لیگ آئندہ چند دنوں میں دوبارہ یکسو ہوکر نئے اتحادیوں کے ساتھ کھڑی دیکھائی دے گی؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چودھری خاندان اور میاں نوازشریف کے درمیان لندن میں ہوئے حالیہ رابطوں کے بعد پرویزالٰہی پنجاب اسمبلی نہ توڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں اس سے قبل وہ یہ کہتے دیکھائی دیتے تھے کہ اقتدار عمران خان کی امانت ہے وہ جب حکم کریں گے ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر اسمبلی توڑدوں گا۔ ایسا ہی ہے تو پھر گزشتہ روز پرویزالٰہی نے اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے گورنر کے حکم کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ غیرذمہ دارانہ بیانات دینے سے اجتناب برتیں اور یہ کہ انہیں25مئی نہیں بھولنا چاہیے؟ 25مئی کو پنجاب میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت تھی اس وقت اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو ناکام کرنے کے لئے ہر وہ حربہ آزمایا جو ماضی کی حکومتیں سیاسی مخالفین کے خلاف آزماتی رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب اپنی اتحادی جماعت کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر ق لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومت اسمبلی تحلیل کرنے پر ختم ہوتی ہے اور مقررہ وقت میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہیں ہوتے تو اس صورت میں صوبائی مشینری وفاقی حکومت کی خوشنودی کے لئے پی ٹی آئی کے ساتھ25مئی جیسا برتائو کرسکتی ہے ایسا ہوا تو پی ٹی آئی مشکلات کا شکار ہوگی۔
پنجاب میں ہر پل بدلتی سیاسی صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وزیراعلی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف پی ڈی ایم کی جانب سے جمع کرائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریکیں کسی یقین دہانی پر ہی واپس لی گئی ہیں۔ کسی سطح پر کرائی گئی یقین دہانی کے حوالے سے ذرائع اس امر کی تصدیق کررہے ہیں کہ پرویزالٰہی نے چودھری شجاعت حسین کے توسط سے پی ڈی ایم کے دو بڑوں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اسمبلی تحلیل کرنے کے سیاسی اعلانات سے آگے کے مرحلہ پر عمل نہیں ہوگا۔ اس یقین دہانی کے بعد ہی دونوں قائدین کے مشورہ پر پی ڈی ایم پنجاب نے عدم اعتماد کی تحریکیں واپس لے لیں۔ اسی اثنا میں وزیراعلی پنجاب سے جب ان کے گزشتہ روز کے اس اعلان کہ اعتماد کے ووٹ کے لئے گورنر کا حکم غیرقانونی ہے پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا گورنر جاری اجلاس کے دوران اعتماد کے ووٹ کے لئے نہیں کہہ سکتا نیز یہ کہ اسمبلی کا اجلاس بلانا سپیکر کی صوابدید ہے گورنر اس صورت میں اجلاس طلب کرسکتا ہے جب اجلاس نہ ہورہا ہو۔ وزیراعلی نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں اسمبلی تحلیل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کو باندھ کر پنجاب میں پی ڈی ایم اور بالخصوص نون لیگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے وزیراعلی پنجاب کے مذکورہ خیالات پر پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ان کے دھڑے کا موقف جو بھی ہو یہ ا مر بہت واضح ہے کہ پرویزالٰہی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں ۔ یقین دہانیاں، کچھ امور کہیں طے پائے ہیں یا خود پرویزالٰہی اپنی سیاست کا اپنے ہاتھوں سے اختتام نہ کرنے کی سوچ پر عمل پیرا ہیں، ان تینوں میں سے مبنی برحقیقت جو بھی بات ہو یہ امر دوچند ہے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا معاملہ اس طرح نہیں ہوگا جس طرح عمران خان دعوی کررہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہونے کی صورت تحریک انصاف خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کردے گی یا حسب سابق اس معاملے کو پنجاب اسمبلی کے مستقبل سے مشروط کرے گی؟۔ ایسا ہی معاملہ قومی اسمبلی سے اپریل میں دیئے گئے استعفوں کے حوالے سے ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنما استعفوں کی منظوری کے خلاف عدالت سے رجوع کئے ہوئے ہیں۔ کراچی سے ایک رکن قومی اسمبلی عدالتی حکم پر سپیکر سے ریلیف لے چکے۔ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی 6نشستوں پر عمران خان جیتے تھے۔ دیکھا جائے تو یہ بھی ایک طرح سے خسارے کا سودا ہی ثابت ہوا جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری کہتے ہیں کہ ان کی جماعت استعفوں کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔ اس اعلان کو بھی ایک ہفتہ گزرگیا، فواد چودھری روزانہ میڈیا کے سامنے ایک دھواں دھار بیان جاری کرکے سپریم کورٹ جانے کی بجائے گھر کی راہ لیتے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ وزیراعظم پی ٹی آئی سے قومی اسمبلی میں واپس آنے اور قومی سیاست میں پارلیمانی کردار ادا کرنے کے لئے کہیں۔ بہرطور اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اولا پنجاب میں کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک ر ہی ہے اور ثانیا یہ کہ قومی اسمبلی سے استعفوں کا معاملہ ہو یا دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا، پی ٹی آئی کی اعلی قیادت اس پر یکسو نہیں۔ اس عدم یکسوئی کی نشاندہی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ گزشتہ دنوں ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں بعض رہنمائوں نے عمران خان سے سوال کیا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں بھی تحلیل کیوں نہیں کردی جاتیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ وفاق سے شرائط منوانے کے لئے کچھ نہ کچھ ہاتھ میں بھی رکھنا ہوگا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پنجاب کی سیاست کی فی الوقت کوئی کِل سیدھی نہیں اور بظاہر جو دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت کے برعکس ہے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟