پاکستان اور افغانستان میں تقسیم نسواں

عالم اسلام اُس وقت سے دو عجیب انتہائوں میں تقسیم ہے جب یہاں استعماری حکومتیں قائم ہوئیں۔ استعمار نے جب اسلامی ممالک پر لورش کی تو اسلامی معاشرہ تین قسم کے ردعمل کا شکار ہوا۔ایک طبقہ نے شدید مزاحمت کی اور جانوں پر کھیل کر گئے۔دوسرا طبقہ استعمار کوایک اٹل زمینی قسمت سمجھ کر ان کو قبول کر گیا۔ تیسرا طبقہ مزاحمت اور قبولیت کے درمیان کہیں جھولتا رہا۔
اسلامی ممالک میں استعماری حکومتوں کے قیام اور ایک طویل عرصہ تک مسلمانوں پر حکمران رہنے کے اسلامی معاشروں پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ استعماری نظام حکومت نے مسلمانوں کے سیاتی ، معاشی معاشرتی ،تعلیمی اور عدالتی نظام کو ہلا کر رکھدیا۔ اس نظام کے تحت مسلمانوں کی ایسی فکر سازی کی گئی کہ وہ بتدریج ذہنی غلامی بنتے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ممالک میں عوام مذہب کی جدید سائنسی ترقی یافتہ مگر الحادی تہذیب کے ایسے اسیر ہوئے کہ اسلامی تہدیب و فکر شکست سے دو چار ہوئی اور مسلمانوں پر نکہت و زوال طاری ہوا۔ اور مسلمان مذہب سے درآمد فکر و تہذیب کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے اس کو زندگی کے مختلف شعبوں پر منطبق کرتے ہوئے ترقی کے منازل طے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ بقول اقبال
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
زندگی کے اہم شعبوں میں تعلیم وہ شعبہ ہے جو مغربی فکر و ذہن سے بہت بری طرح متاثر ہوا۔ ہندوستان میں لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسیوں نے تو وہ انقلاب برپا کر دیا جس کے گہرے اور دبیز اثرات سے مسلم معاشرہ آج بھی سنبھل نہیں سکا۔ آج بھی مسلمان معاشروں میں تعلیم کے حوالے سے جدید و قدیم ، سکول کالج اور مدرسہ، علی گڑھ اور دیوبند ،مغربی لادہنی اور مشرقی و اسلامی کی بخشیں شد و مد سے اٹھائی جاتی ہیں۔
اسی تناظر میں پچھلے دنوں خبر آئی کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر سے طالبان کے اس اقدام کی مذمت میں آوازیں بلند ہوئیں پاکستان سے بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقات نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔کیونکہ پاکستان میں سکول کالج اور جامعات کی سطح پر مخلوط نظام کے تحت لڑکیاں بھی حصول تعلیم کے لئے تعلیمی اداروں میں آتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بھی بالخصوص دینی مدارس سے فارغ التحصیل طبقات اور مذہب سے گہری وابستگی رکھنے والوں کے ہاں مخلوط نظام تعلیم کے حوالے سے قبولیت موجود نہیں لیکن پاکستان جیسے نیم ترقی یافتہ اور مغربی نظام تعلیم اور تہذیب کے سبب کھل کر مخالفت کا اظہار نہیں کر سکتے ورنہ باطنی طور پر ان کے اور طالبان کے نقطہ نظر میں کوئی فرق نہیں ۔
دراصل پاکستان میں فکر وتہذیب کے حوالے سے آج تک کوئی واضح نقطہ نظر سامنے آ نہیں سکا۔ قیام پاکستان لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر ، مگر یہاں کا سیاسی معاشی ، عدالتی اور تعلیمی نظام پر مغربی فکر کا غلبہ ہے۔ ورنہ مذہبی طبقات کو یہ نظام کسی طرح بھی قبول نہیں ۔عام طور پر لوگ پاکستان کو ایک کٹر اسلامی ملک اور یہاں کے سارے نظام کو اسلامی سمجھتے ہیں اور اس بناء پر وہ حیران ہوکر سوال کرتے ہیں کہ جب پاکستان میں لڑکیوںکو کالجوں اور جامعات میں حصول تعلیم کی اجازت ہے تو افغانستان میں پابندی کیوں اور وہاں لڑکیوں کی تعلیم غیر اسلامی کیوں ہو سکتی ہے۔ دراصل اس وقت معاشروں کے حوالے سے جو عالمی تناظر ہے وہ بہت پیچیدہ ہے، لہٰذا خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بھی نقطہ نظر میں اختلاف ہے۔ مثلاً پاکستان میں موجود نظام کے تحت لڑکیوں کی تعلیم کو بہت سے مذہبی عناصر کہیں گے کہ یہ غیر اسلامی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جدید تعلیم یافتہ اور مغرب زدہ طبقات اسی کو اسلامی ہی کہتے ہیں ۔ ایسے ہی پاکستان میں مذہبی اور جدید تعلیم یافتہ طبقات پاکستان ہی لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلے کو شعوری اور غیر شعوری طور پر افغانستان کے بہت سارے معاملات و حالات کو جانے اور سمجھے بغیر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فکر و ذہن کی یہ تقسیم گزشتہ ایک صدی سے چلی آرہی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مدارس اور قبائلی رسوم و رواج کے تحت اب بھی لڑکیوں کی تعلیم کا معاملہ لڑکوں سے الگ ہے۔ یہاں تک کہ بعض حضرات کے ہاں تو لڑکوں کے لئے بھی کالج کی تعلیم کوئی زیادہ سود مند تو کیا بہت خطرناک بھی ہے۔ اس تعلیم کے بارے اکبر آلہ آبادی جیسے فہیم انسان نے فرمایا تھا۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اور یہ بھی ملاحظہ کیجئے کہ
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگزیزی
ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
اور یہ سین دکھائے گا کیا رنگ
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
اور اسی طرح علامہ میں اقبال کو جب ”سر” کا خطاب ایک تقریب میں دینا منظور ہوا تو انگزیز سرکار نے اس تقریب میں اقبال کو لیڈی اقبال کے ساتھ آنے پر اصرار کیا تو علامہ نے فرمایا کہ اگر یہ اس خطاب کے لئے شرط ہے تو پھر اسے اپنے پاس رکھو۔ ابھی کل کی بات ہے کہ مولانا محمد یوسف بنوری نے ٹیلی ویژن پر تقریر کرنے کو غیر اسلامی قرار دیا ۔ ان ہی نظریات کی بنیاد پر کے پی کے قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں کی نسبت کم ہے۔ افغانستان تو ابھی قبائلی طرز زندگی سے نکلا نہیں اور اس پر مستنراد اور مدارس پاکستان کے فارغ الحتصیل طلباء کی حکومت ،اس لئے طالبان کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم غیر اسلامی ہے۔ لیکن بہر حال لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا کسی صورت جائز نہیں لہٰذا ان عناصر کوجو موجودہ حالات کو لڑکیوں کی تعلیم کے لئے غیر اسلامی سمجھتے ہیں ،دن رات جدوجہد کرنی چاہیے کہ جلد از جلد وہ حالات پیدا کریں جس میں لڑکیاں آزادی اور سہولت کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں ۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟