بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکامی

عام شہریوں کا معیار زندگی اور عوام کو ضروریات زندگی کی دستیابی سے حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے، یہاں صورتحال یہ ہے کہ عام شہریوں کو گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونے کے باوجود چند یوم کیلئے سستا آٹا دستیاب نہیں ہے، قطار میں لگ کر شہری مفت میں آٹا حاصل نہیں کرتے ہیں بلکہ انہیں یہ امید ہوتی ہے کہ جان کو جوکھوں میں ڈال کر مارکیٹ کی نسبت چند روپے سستا آٹا دستیاب ہو سکے گا، اس مقصد کیلئے وہ موسم اور وقت کی پرواہ کئے بغیر گھنٹوں لائن میں کھڑے ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کیلئے آٹا حاصل کر سکیں، اس طرح کے مناظر پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں دکھائی نہیں دیتے۔ سندھ میں سستا آٹا حاصل کرنے کیلئے لائن میں لگے افراد کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ہیں اس سے انسانیت کانپ اٹھی ہے، سندھ کے ضلع میرپور میں سرکاری نرخ پر سستا آٹا ٹرک پر فروخت کیا جا رہا تھا جسے حاصل کرنے کیلئے خواتین،بچے اور نوجوان جمع تھے کہ اسی دوران ڈرائیور نے ٹرک چلا دیا، بد نظمی ہوئی، لوگ زمین پر گرے جن میں سے کئی زخمی ہوئے، ان میں سے ایک شخص8بچوں کا باپ تھا جو بچوں کیلئے آٹا لینے آیا تھا مگر اس کا لاشہ واپس گیا، اسی طرح نواب شاہ کی فلور مل کے باہر سرکاری نرخ پر سستا آٹا خریدنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے بچی سمیت3خواتین ہجوم کے پائوں تلے دب گئیں۔ ٹنڈو باگو میں ایک ماہ کے بعد جب سستے آٹے کا ٹرک شہر میں آیا تو عوام کا ہجوم ٹرک کے گرد جمع ہو گیا، یہاں تک کہ ہجوم کو ہٹانے کیلئے پولیس طلب کرنی پڑی، پولیس نے عوام کا جم غفیر دیکھ کر اس پر لاٹھی چارج کیا، جس سے نوجوان کا سر پھٹ گیا، ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چند روپے کی بچت میں عوام اپنی جان خطرے میں ڈالنے کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ جس ریاست میں عوام کو عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی دستیاب نہ ہو، جہاں عوام آٹے کے حصول کیلئے گھنٹوں لائن میں کھڑے ہونے پر مجبور ہوں وہاں کے اہل سیاست اور ارباب حل و عقد اقتدار کے حصول کیلئے باہم گتھم گتھا ہیں، حکمرانوں کے دعوئوں اور زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہے، ان کے قول و فعل میں تضاد ہے، عوام کے مسائل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہے، خوشحالی، ترقی تو بہت دور کی بات ہے، کم از کم عوام کو دو وقت کی روٹی تو عزت کے ساتھ فراہم کریں۔
طبی شعبے میں بہتری کے اقدامات لائق تحسین
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت شعبہ صحت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور عوام کی طبی خدمات تک رسائی یقینی بنانے کے لئے نتیجہ خیز اقدامات کر رہی ہے، اس ضمن میں انہوں نے نان ٹیچنگ ضلعی ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے، رورل ہیلتھ سنٹرز اور بنیادی مراکز صحت کو24 گھنٹے فعال رکھنے جیسے اقدامات کا ذکر کیا، بلاشبہ صوبائی حکومت کے یہ اقدامات لائق تحسین ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا مشکل ہو گیا ہے، ایسے حالات میں ان کے لئے اپنے خرچ پر علاج معالجہ کا تصور بھی محال ہے، چونکہ صحت مند شہری ہی صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے اس لئے عوام کو کم از کم علاج معالجہ کی بہتر سہولتوں کی صورت میں بلاتفریق ریلیف ملنا چاہئے، نان ٹیچنگ ضلعی ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن سے یقیناً لوگوں کو معیاری علاج معالجہ میسر آئے گا، تاہم حکومت کی طرف سے ررول ہیلتھ سنٹرز اور بنیادی مراکز صحت کو 24 گھنٹے فعال بنانے کی طرف توجہ دینا زیادہ حوصلہ افزاء اور قابل تعریف اقدام ہے، کیونکہ دیہی علاقے آج بھی بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں، غربت اور شہروں سے دوری کے باعث دیہات کے لوگ آج بھی دیسی ٹوٹکوں سے علاج کو ترجیح دیتے ہیں جو بعض اوقات نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے، خاص طور پر دیہات میں حاملہ خواتین کو زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں، حمل کے دوران معمول کا چیک اپ نہ ہونے کے باعث انہیں ڈلیوری میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دیہی طبی مرکز اور ایمبولینس کی سہولت نہ ہونے کے باعث بعض اوقات زچہ بچہ کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر مریضوں کو بنیادی طبی مراکز کی طرف سے بڑے ہسپتالوں میں ریفر کیا جائے تو اس طرح ان کے لئے وہاں علاج تک رسائی میں آسانی ہو جاتی ہے، اس کے برعکس اگر انہیں براہ راست شہر کے بڑے ہسپتالوں تک آنا پڑے تو انہیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اس ضمن میں خیبر پختونخوا حکومت کا رورل ہیلتھ سنٹرز اور بنیادی مراکز صحت پر توجہ دینا عوام کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستانی طالبات کا مسئلہ حل کیا جائے
افغانستان میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی سے وہاں کے اداروں میں زیر تعلیم پاکستانی طالبات بھی متاثر ہوئی ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب ان طالبات کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھی داخلہ نہیں دیا جا رہا ہے، جس سے ان کا کیریئر داؤ پر لگ گیا ہے اور وہ شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں، اس صورت حال پر متاثرہ طالبات نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ہے۔
بلاشبہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے اور وہاں طالبان حکومت کی طرف سے خواتین کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگانے کے اسباب جو بھی ہیں، وہ ان کا داخلی معاملہ ہے اور وہ اپنے حالات، معاملات اور اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہی اس حوالے سے کوئی پالیسی یا ضابطے بنائیں گے لیکن اس پابندی سے جہاں تک پاکستانی طالبات کے متاثر ہونے کا تعلق ہے تو ان کی مدد کرنا ریاست اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے، اگر پاکستانی طالبات کے لئے اپنے ملک کے تعلیمی اداروں کے دروازے بھی بند کئے جا رہے ہیں تو یہ ستم ظریفی، سراسر ناانصافی اور ان کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے، اس کے علاوہ یہ شہری کے بنیادی انسانی حق کی بھی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی آتا ہے، اس لئے حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ وہ متاثرہ پاکستانی طالبات کے جائز مطالبے پر توجہ دیں۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے