جامع معاشی پروگرام کی ضرورت

مالی بحران کے پیش نظر حکومت عالمی ادارہ (آئی ایم ایف) سے اگلی قسط حاصل کرنا چاہتی ہے، تاہم آئی ایم ایف نے نئی شرائط کا عندیہ دیا ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام پر مہنگائی کا نیا طوفان آنے والا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرے گی، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے برملا کہا ہے کہ آئی ایم ایف شرائط پوری کرنے سے مشکلات بڑھیں گی، رانا ثناء اللہ کے مطابق دوست ممالک بھی عالمی ادارے سے معاہدے کے بغیر مدد کیلئے تیار نہیں ہیں، حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کر رہی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ2018ء کے بعد سے پاکستان شدید مالی مشکلات کا شکار ہے، تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے مسلم لیگ ن کی سابق حکومت ملبہ ا ڈالنے کی کوشش کی اور مؤقف اپنایا کہ آئی ایم ایف سے مالی پیکج حاصل کئے بغیر چارہ نہیں، سو کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا گیا، قرض دیتے ہوئے جو شرائط عائدکی تھیں انہیں پورا کرنا ضروری تھا، حکومت نے مگر مختلف مدات میں سبسڈی دے کر کسی حد تک عوام کو ریلیف فراہم کیا جس میں پیٹرولیم ممصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی شامل تھی تاہم حکومت کے اس عمل سے آئی ایم ایف ناراض ہو گیا جب آئی ایم ایف کی طرف سے نئی قسط جاری نہ ہوئی تو پاکستان کا مالی بحران شدید ہو گیا۔
دوست ممالک سے چونکہ پہلے ہی ہم مالی تعاون حاصل کر چکے تھے سو ہمارے لئے آپشن کم ہوتے گئے، تحریک انصاف کی حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہتی تھی، اس نے اپنے معاشی پروگرام کے تحت ملک کو آگے بڑھایا مگر گردشی قرضے اور ملک کے بیرونی قرضوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو گیا۔ تحریک انصاف کے خلاف مارچ2022میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو قرض53ہزار544ارب روپے تھا، جبکہ2018ء میں29ہزار879ارب روپے تھا۔ گردشی قرض1148ارب 2467 ارب پر پہنچ گیا۔اتحادی حکومت کے چند ماہ کے دوران گردشی قرض4ہزار177ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، پچھلے سات برسوں کے دوران پاکستان پر بیرونی قرض65ارب ڈالر سے بڑھ کر130ارب ڈالر ہو گیا ہے، چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک قرض کی واپسی کو ری شیڈول کر دیتے ہیں، جس سے وقتی سہارا ملتا ہے، ابھی حال ہی مین سعودی عرب نے3ارب ڈالر کا قرض ری شیڈول کیا ہے، معاش ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ3برسوں کے دوران پاکستان کو73ارب ڈالر قرض کی واپسی کرنی ہے، جبکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر4ارب ڈالر ہرہ گئے ہیں، حکومت کا دعویٰ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر 4ارب ڈالر نہیں بلکہ 10ارب ڈالر ہیں، کیونکہ 6 ارب ڈالر کمرشل بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں، اگر10ارب ڈالر کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی زرمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش نہیں ہیں، کیونکہ2018 میں زرمبادلہ کے ذخائر23ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے۔ اس وقت ملکی قرضے ہمارے جی ڈی پی کا 40فیصد بنتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی آمدن کا تقریباً آدھا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں خرچ کر دیتے ہیں، اگر بیرونی قرضوں کے ساتھ اندرونی قرضے بھی شامل کئے جائیں، جو جی ڈی پی یعنی ملکی پیداوار کا90فیصد بنتا ہے، تو معاملات انتہائی مخدوش صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں، یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب90فیصد ہم ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں خرچ کرتے ہیں تو بجٹ بنانے اور حکومت چلانے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے حالات میں حکومت کے پاس عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا ہے، بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ عوام پر اضافی بوجھ ڈالنا ہی مسائل کا حل ہے؟ اگر مہنگائی کی شرح میں اسی حساب سے اضافہ جاری رہا تو ملک میں طبقہ اشرافیہ کے علاوہ عوام کیلئے رہنا مشکل ہو جائے گا، کیونکہ آگے چل کر ایک مرحلہ ایسا آئے گا جب عوام کی قوت خرید جواب دے جائے گی، حکومت کی معاشی پالیسیاں اس امر کی عکاسی کر رہی ہیں کہ ہم اس مرحلے کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ہر مسئلے کا حل آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے تو پھر سیاسی جماعتیں جو عوامی مسائل کو حل کرنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آتی ہیں ان کے پاس معاشی پروگرام کیا ہے؟ ملک کے معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ایک جامع معاشی پروگرام تشکیل دیا جائے جس میں قرضوں سے نجات اولین ترجیح ہو، کیونکہ جب حکومت کو بچت ہو گی تو وہ عوام پر خرچ کر سکے گی۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے