پرتشدد واقعات کا سلسلہ تھم نہ سکا

(نعمان جان ) خیبر پختونخوا پر 2022ء کا سال بھاری ثابت ہوا، اس سال کے دوران جہاں پولیس ٹارگٹ کلنگ کا شکار رہی ہے وہیں قتل مقاتلے اور دیگر جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ صوبہ میں ان حملوں اور پر تشدد واقعات کے لئے افغانستان کے حالات کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جہاں نظام کی تبدیلی اور نئی حکومت آنے کے بعد بھی بظاہر کوئی سیاسی، انتظامی اورمعاشی ڈھانچہ نظر نہیں ا رہا ہے۔ ہمسایہ ملک دہائیوں سے جنگ اور بدامنی کا شکار رہا ہے جس کے اثرات پشاور سمیت خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع پر بھی پڑ رہے ہیں خصوصاً جنوبی اضلاع میں حالیہ دنوں میں ٹارگٹ کلنگ اوردہشت گردی کی وارداتیں رونما ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار امتیازگل نے بتایا کہ افغانستان میں نئی عسکریت پسند تنظیموں کے ظہور کے بعد پاکستان کو بھی کئی طرح کے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ 2022ء میں صرف دسمبر کے مہینے میں خیبرپختونخوا، قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں پرتشدد واقعات کی لہر کے دوران 2 درجن سے زائد حملے کئے گئے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا و قبائلی اضلاع کے لئے 2023ء بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سکیورٹی اورحکومتی عہدیداروں کی جانب سے خیبرپختونخوا میں حملوں سے متعلق یہ مؤقف سامنے آ رہا ہے کہ یہ سرحد پار سے حملے کئے جا رہے ہیں تاہم ان کے تدارک کے لئے دونوں ممالک کی حکومتوں اور سکیورٹی اداروںکو مل کر ایک مربوط کوآرڈینیشن کے تحت کام کرنا ہوگا۔ گزشتہ سال فرائض کی انجام دہی کے دوران پشاور پولیس پر عسکریت پسندوں نے لگ بھگ 18حملے کئے جن کے نتیجے میں 6 پولیس اہلکار جاں بحق جب کہ 9 شدید زخمی ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی کئی اہم واقعات میں ملوث عسکریت پسند ا ور ٹارگٹ کلرز بھی مارے گئے۔ پولیس کے مطابق 19عسکریت پسند پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں جن کے قبضے سے 4 عدد خودکش جیکٹس اور131دستی بم برآمد کرکے ناکارہ بنائے گئے ۔
حالیہ عرصہ میں پشاور سمیت صوبہ کے مختلف اضلاع میں عسکریت پسندوں کے بعض حملوں میں جدیداسلحہ تھرمل ویپن سائٹ استعمال ہونے کا بھی انکشاف کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے آئی جی پی خیبرپختونخوا معظم جاء انصاری نے بھی میڈیا کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں مردان، بنوں، لکی مروت اور ٹانک میں کچھ کارروائیوں میں عسکریت پسندوں نے تھرمل ویپن سائٹ کا استعمال کیا۔ خدشہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی افغانستان سے لائی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہتھیار نیٹو فورسز کے جانے کے بعد عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا پولیس کو بھی جدید اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں بارڈرکے قریب کچھ جگہوں پر افغان حکومتی رٹ نظر نہیں آرہی ہے جس کی وجہ سے مسائل پیش آ رہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 2023ء امن کا سال ثابت ہوگا۔
تاہم بدقسمتی سے نئے سال کے آغاز کے بعد بھی خیبرپختونخوا میں پرتشدد واقعات اور حملوں کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ نئے سال کے آغاز پر ہفتہ واتوار کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے باڑہ میں ایس ایچ او کے گھر پر ہینڈ گرینیڈ پھینک دیا۔ اس سے قبل بھی ان کے گھر پر ہینڈ گرینیڈ پھینکا گیا تھا جب کہ ضلع لکی مروت میں تھانہ پیزو پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے ایلیٹ فورس کا ایک اہلکار جاں بحق ہوا جب کہ نوشہرہ سی ٹی ڈی پولیس نے مبینہ خودکش بمبار کوگرفتار کرلیا تھا جس سے جیکٹ اور ہینڈ گرینیڈ بھی برآمد کیا گیا۔ ملزم کو اکوڑہ خٹک مہاجر کیمپ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
قتل مقاتلے کے حوالے سے بھی سال 2022ء پشاور کے عوام پر بھاری ثابت ہوا۔ صرف ایک سال میں 508 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ معاشرے میں فوری انصاف نہ ملنے، عدم برداشت، سزاء کا عمل سست ہونے، اسلحہ کی فراوانی و دیگر وجوہات کے باعث جرائم خصوصاً قتل وغارت کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پولیس ڈیٹا کے مطابق گزشتہ سال زر، زن اور زمین کے تنازعات پر 508 افراد قتل کئے گئے جب کہ 787 زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے اعدادوشمار کے مطابق 63 افراد کوسابقہ دشمنی، 63 افراد کو لڑائی جھگڑوں، 30 افراد کو معمولی تکرار، 45 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جب کہ جائیداد تنازعات پر28 افراد، لین دین کے تنازعات پر 26 افراداور بچوں کی لڑائی پر 11افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو گزشتہ سال سب سے زیادہ قتل کی وارداتیں پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں رونما ہوئیں جہاں تقریباً50 افرادکی جانیں لی گئی ہیں۔ جرائم میں قتل سب سے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ، قتل کی بڑھتی وارداتوں کی روک تھام پولیس کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایک طرف قتل مقاتلے اور دیگر جرائم پیش آرہے ہیں تو دوسری طرف پولیس نے بھی گزشتہ سال کے دوران 139 افراد کے اندھے قتل کیسز کو ٹریس کیا اور ان میں ملوث سینکڑوں افراد کو گرفتارکیا۔ پولیس حکام کے مطابق انصاف و قانون کے نظام میں اصلاحات کے بغیر جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔ جب تک پولیس، پراسیکیوشن اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز میں قریبی روابط اور کوآرڈی نیشن نہیں ہوگی، حالات میں بہتری نہیں آئے گی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ قتل مقاتلے، منشیات ودیگر جرائم میں ملوث افراد جیلوں سے ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں یا پھر بری کر دیئے جاتے ہیں جس کے لئے پولیس اور پراسیکیوشن کی ناقص تفتیش اورکمزور شواہد سمیت دیگر وجوہات پیش کی جا رہی ہیں۔ پولیس کی جانب سے جرائم و قتل کی وجوہات جاننے کے لئے باقاعدہ ڈیٹا پر بھی کام شرو ع کر دیا گیا ہے جب کہ تنازعات کی روک تھام کے لئے ڈی آرسیز کو بھی مزید فعال کرنے کے اقدامات شروع کئے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق نشہ کا استعمال، صبر وبرداشت کی کمی اورکئی گھر وں میں اسلحہ ہونے کی وجہ سے قتل کی وارداتیں پیش آ رہی ہیں جہاں زمین کے چند ٹکڑوں یا پیسوں کی خاطر ایک دوسرے کا خون کیا جا رہا ہے۔ ادھرماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ قتل کی بڑھتی وارداتوں کی وجوہات میں سوشل میڈیا پر بڑھتا ہوا تشدد، ماردھاڑ اور جرائم سے بھرپور فلمیں بھی ہیں۔ بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے مناسب چیک نہ ہونے کے سبب مستقبل میں مزید کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس حوالے سے والدین کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  پی ڈی ایم تجربات ناقابل برداشت، عوامی مسائل پر توجہ دینا ہوگی، علی امین