پولیس کی کونسی کل سیدھی؟

پولیس اور نظام انصاف سے عام آدمی ہمیشہ سے نالاںرہا ہے اور یہ بے وجہ ہر گز نہیں اس لئے کہ یہ دونوں محکمے اور ادارے اگراپنے فرائض منصبی سے انصاف کرنے والے بن جائیں تو عام آدمی اور معاشرے کی نہ صرف بہت ساری مشکلات اور مسائل میں کمی آئے بلکہ مسائل سرے سے سامنے ہی نہ آئیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اولاً پولیس کا نظام اور پولیس کی کارکردگی قابل افسوس ہے اور دوم اگرپولیس اتفاق سے اپنی ڈیوٹی پوری کر بھی لے تو پھر انصاف کا نظام بصورت موجودگی و عدم موجودگی موثر قوانین اورپھر ان کے مطابق انصاف کے عمل کی تکمیل نہیں ہو پاتی یہی وجہ ہے کہ پورا معاشرہ ایک انحطاط اور غیر یقینی کی کیفیت کا شکار نظرآتا ہے ۔ عام آدمی کا پولیس سے واسطہ شاذ و نادر ہی پڑتا ہے اور ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ وہ پولیس سے بامر مجبوری اور ناگزیر ہونے پر ہی رابطہ کرے ایسا کیا ہوتا ہے کہ عام آدمی پولیس سے شاکی ہے اس کی ایک جھلک مولانا حبیب الدین چترالی جو عالم دین اور خطیب ہیں کے طویل مراسلہ کے اقتباسات میں نظرآتی ہے ان کی فکر انگیز تحریر ملاحظہ فرمائیں ۔
تھانہ اور تھانہ دار کا لفظ سن کر کسی کو خوف ہوتا ہے تو کسی کو اطمینان ہوتا ہے ‘ یہ دو متضاد کیفیات کیوں پیدا ہوئیں؟ یہ میرا سوال ہے ۔ یہ کارخانہ عالم علت و معلول ‘ سبب و مسبب ‘اور شرط وجز کی تکونی فارمولے سے مرکب ہے جو نیا حادثہ اور نیاواقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے ہر شخص یہی سوال اٹھاتا ہے کہ اس واقعہ کا سبب کیا ہے ‘ یہ واقعہ کیوں پیش آیا ‘ گویا کہ فطرت انسانی اور فطرت کائناتی ایک ساتھ چلتی ہیں تو یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے تھانہ کا نام سن کر ایک شخص کو خوف لاحق ہوتا ہے دوسرے شخص اطمینان اور قرار محسوس کرتا ہے تو لفظ دو کیوں سر اٹھاتا ہے حالانکہ دونوں ایک ہی شہر کے باشندے ہیں آج میں چمکنی تھانہ میں آنکھوں دیکھا حال کی آپ بیتی سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں ‘ تاکہ کیوں کا جواب مل جائے ‘ چمکنی تھانہ میں جو کچھ میں نے دیکھا ‘ ذہن اور دماغ جوسمجھا اس کو ہو بہو قارئین کے سامنے لاتا ہوں ‘ یکم جنوری 2022ء میری زندگی میں منحوس دن ثابت ہوا ۔2022ء کا آغاز مایوسی سے ہوا یکم تاریخ بروز ہفتہ چمکنی تھانہ کے گیٹ پر پہنچا تو ایک پولیس یونیفارم میں ملبوس شخص نے مجھ سے شناختی کارڈ لے لیا رجسٹر میں درج کیا مجھے اندر جانے کی اجازت دے دی میں صرف اپنے ذاتی مسئلہ کے سلسلے میںتھانہ چمکنی نہیں گیا تھا بلکہ ایک سوچ اور نظریہ کے جذبہ کے تحت گیا تھا اندر کے نظام کو دیکھنا ‘ سمجھنا اورسمجھانا اور پھر دوسروں کو بتانا اور پھیلانامیرا مطلوب تھا ‘ گیٹ سے داخل ہونے کے بعد ایک گیٹ اور ہے ‘ اس گیٹ کے بائیں جانب حوالات خانہ ہے اس میں ہمیشہ چارپانچ مجرم جالی سے آنے جانے والوں کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھتے نظرآتے ہیں ‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی رشتہ دار پولیس میں ملازم نہیں اور نہ ہی ان کو کسی بااثر شخصیت یاسیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہوتی ہے ورنہ یہ اس طرح حوالات میں بند نہ ہوتے ‘ یہاں سے آگے دفتری نظام قائم ہے ادھر آکر میں حیرت میں پڑ گیا میرے اندر عجیب کیفیت طاری ہوئی مجھے پتہ نہیں چلا کہ میںپولیس سٹیشن آیا ہوں یاموہنجودڑو کے کھنڈرات کی سیر کر رہا ہوں مجھے کوئی چیز بھی جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق نظر نہیں آئی یہاں کے کمروں اور عمارتوں کو دیکھ کر میرے دل نے کہا ان کی بنیاد وائسرائے ہند کے دور میں رکھی گئی ہوگی یا شاہ جہان سلطان دہلی کے دور کی ہو گی وہی زمانہ قدیم کے تمدن کے مطابق کمروں کی بلندی چھ سات فٹ ہے سامنے پرانے لیٹرینوں کی مرمت کا کام جاری تھا صرف پلسترکی حد تک ‘ میں نے گمان کیا کہ شاید چمکنی تھانہ پاکستان کا حصہ نہیں ہے ایک فطری بات میرے ذہن میں باربار آئی وہ یہ کہ خوبصورت گھر اور خوبصورت بلڈنگ کا قدرتی طور پر ایک اچھا اثر ہوتا ہے آپ نے دیکھا ہو گا نہیں دیکھا ہے تو آج کے بعد دیکھومالدار لوگوں کے گھر اچھے ہوتے ہیں خوبصورت ہوتے ہیں ‘ مالداروں کے اور ان کے بچوں کے اخلاق بھی اچھے اور خوبصورت ہوتے ہیں یہ تربیت کی وجہ سے نہیں بلکہ فطری طور پر مالیات کا اخلاقیات پرایک اثر ہے ان کی اولاد باپ کے تابعدار ہوتی ہے یہ قاعدہ اکثر یہ ہے قاعدہ کلیہ نہیں ہے اس کے مقابلے میں غریب کی اولاد اچھے اخلاق کے مالک نہیں ہوتے یہ غربت کا اثر ہے ۔بہرحال بہت دور نکل گیا بات یہ چل رہی تھی مالیات کا اخلاقیات پر اثر ہے اس طرح تمدن کا بھی انسانی نفسیات پر اثر ہے چمکنی تھانہ کی عمارت بہت پرانی اور خستہ حال ہے اس میں خدمات انجام دینے والے سٹاف کے اخلاق بھی خستہ حالی کاشکار ہونا فطری امر تھا۔ میں جناب وزیر اعلیٰ صوبہ خیبر پختونخوا اور آئی جی سے گزارش کرتا ہوں کہ تمام تھانوں کی عمارتوں کی جدید تقاضوں کے مطابق ارسز نو تعمیر کی جائے پھر پولیس سے دیانت اور امانت سے کام کرنے کی امید رکھی جائے جب ملک بھر میں تمام اداروں کی بلڈنگز جدید سہولیات ‘ آرائش و زیبائش سے مزین ہیں پاس سے گزرنے والے کا دل خوش ہوتا ہے کیا چمکنی تھانہ اور اس میں کام کرنے والے ذمہ دار حضرات جدید سہولیات کے مستحق نہیں ؟ یہ وزیر اعلیٰ محمود خان سے میرا سوال ہے بہرحال چمکنی تھانہ کے تمدن کو دیکھ کر انصاف کی امید کرنا بہت مشکل ہے ۔
مولانا صاحب کا مختصراً مسئلہ کرائے کے مکان کے ایڈوانس کی عدم واپسی کا تھا جس پر وہ پولیس سے مدد کے طلب گار ہوئے قطع نظر اس کے کہ یہ مسئلہ پولیس کے دائرہ اختیار کا تھا یا نہیں پولیس نے اس سلسلے میں جو رویہ اختیار کیا وہ قابل غور اور قابل مذمت ہے ۔ ان کو چمکنی تھانہ کے نو بار چکر دلوائے گئے اور ہر بار کی جو طویل روداد انہوں نے لکھی ہے اس میں پولیس سٹیشن میں ایک عالم دین سے رکھا گیا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔اگر پولیس کا رویہ ایک عالم دین سے غیر مہذب اور ناشائستہ تھا تو پھر عام سائل کی کیا حالت ہو گی اس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے بہرحال مولانا صاحب اور ان کے مالک مکان جو غالباً وہ خالی کر چکے تھے ان کے ایڈوانس کی مد کی اٹھائیس ہزار روپے کی واپسی کا مسئلہ اتنا بڑا نہ تھا کہ اس کے لئے نوچکر لگوائے جاتے یہ اگر پولیس کا کیس نہ تھا توپہلے ہی دن ان کو بتا دیا جاتا جب یقین دہانی کرائی گئی تو جھوٹی اور طفل تسلیوں کی ضرورت ہی کیا تھی آخر کیوں ان کو بار بار کا خواہ مخواہ کا وقت دیا گیا اور پولیس نے کارروائی اور مسئلہ حل کرنے کے نام پر سوائے دہوکہ اور اذیت دینے کا اور کچھ نہ کیا۔ ان کامسئلہ بالاخر پولیس کی وساطت سے نہیں باہر جرگہ میں حل ہوا صرف اٹھائیس ہزار روپے کی بات تھی اور تنازعہ بھی کوئی ایسا نہ تھا۔مگر ان کوپولیس سٹیشن میںجس اذیت کا سامنا کرنا پڑا وہ پورے پولیس نظام پرسوال ہے جس کاجواب کوئی نہیںدیتا اور نہ ہی کوئی دے گا۔
قارئین اپنے پیغامات 03379750639 پر واٹس ایپ ‘ کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ