دعوے اور عمل

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کے اصلاحاتی اقدامات کی بدولت عوام کا سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال ہو گیا ہے۔وزیر اعلیٰ محمود خان نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت کی اصلاحات اور ترقیاتی پروگرام کے باعث تعلیمی اداروں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے تاکہ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ملکی ترقی اور معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا نام روشن کر سکیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اعداد و شمار کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں جن حکومتی اقدامات کاتذکرہ کیا ہے وہ اپنی جگہ حقیقت ہے البتہ ان اقدامات کے پراثر ہونے اور درست انداز میں تعلیمی نظام چلانے کے ساتھ اس شعبے میں اصلاحات پر عدم اطمینان کے کئی مواقع ہیں جس کے باعث اقدامات کی افادیت پرعدم اعتماد اور ان کے خاص طور پر نتیجہ خیز نہ ہونے اور سرکاری وسائل کے استعمال کے باوجود غیر موثر حکمت عملی کے باعث نتیجہ خیز نہ ہونے کا عمل بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں۔بعض ایسے فیصلے اور اعلانات بھی کئے گئے جو نہ صرف غیر موثر اور لاحاصل ثابت ہوئے بلکہ حکومت کو اسے واپس لینا پڑا جس سے قطع نظراس جدیددور میں بھی وزیر اعلیٰ صرف شرح خواندگی میں اضافہ کو کامیابی سمجھتے ہیں اب تو صرف شرح خواندگی کافی نہیں بلکہ سکولوں اور کالجوں وجامعات کی تعلیم بھی لاحاصل ہی ثابت ہو رہی ہے اس ضمن میں سوائے فخوشولہ انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ کسی بھی سرکاری تعلیمی ادارے میں طلبہ کو اس طرح کی تعلیم نہیں دی جارہی ہے کہ وہ مارکیٹ کی ضروریات اور آنے والے دور کی ضروریات کے مطابق ہو صرف سرکاری اداروں ہی میں نہیں بلکہ غیر سرکاری اداروں کی صورتحال بھی زیادہ حوصلہ افزاء نہیں بنا بریں اس ضمن میں صرف دعوئوں کی نہیں عملی کام کی اشد ضرورت ہے جس پر حقیقی معنوں میں توجہ دے کر طلبہ کو مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ تعلیم و تربیت ہنر سکھانے اور عملی طور پر کام کی صلاحیت کا حامل بنایا جا سکتا ہے ۔
آخر کب تک؟
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلمشنٹ خدا کے واسطے کوئی سیاسی انجینئرنگ نہ کرے کیونکہ ماضی میں جو سیاسی انجینئرنگ کی گئی ہے اس کا ملک کو بہت نقصان ہوا ہے۔ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ جہاں ہم آج کھڑے ہیں اس میں سب سے بڑا ہاتھ اسی طرح کے عناصر کا ہے جن کے پاس بہت بڑی طاقت تھی ۔دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ منحرف اراکین کی نئی سیاسی جماعت بننے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمارا کسی سے اختلاف نہیں، اداروں کیساتھ ورکنگ ریلیشن شپ چاہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔تحریک انصاف کے قائد اور اس کے نفس ناطقہ کے بیان میں جوتفاوت ہے اس سے قطع نظر اسٹیبلشمنٹ اور سیاست میں اب کمبل والا تعلق بن گیا ہے جو ملک و قوم کے حوالے سے کوئی احسن صورت نہیں اسٹیبلشمنٹ ایک طرف غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہونے کی دعویدار ہے اور دوسری جانب سیاسی مدو جزر میں ان کے ہاتھ نظر نہ آنے کے باوجود واضح طور پر نظر آنے کی کیفیت ہے یہ درست ہے کہ سیاست دان خود ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے اور مل بیٹھ کر معاملات کاحل نکالنے پر آمادہ نہیں لیکن اس کے باوجود ان کے معاملات میں مداخلت کی بجائے ان کو ان کے حال پر چھوڑناہی بہتر راستہ ہو گا ان کو خود اپنی غلطی کا احساس ہونے دیا جائے ۔ سیاسی انجینئرنگ کے نہ تو پہلے نتائج اچھے نکلے ہیں اور نہ ہی اب نکلیں گے ۔
منڈہ پل کی جلد بحالی کی ضرورت
گزشتہ سال تباہ کن سیلاب کے باعث تحصیل شبقدر اورتنگی کو ملانے والے دریا برد ہونے والے منڈہ پل کی عدم بحالی سے لوگوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں دونوں تحصیلوں کے ہزاروں لوگوں کی آمدورفت کے اس واحد ذریعے کی بحالی کے اب بھی آثار دکھائی نہیں دیتے منڈہ پل کی عدم تعمیر کی وجہ سے درجنوں دیہات کے درمیان زمینی رابطہ کئی مہینوں سے معطل اور لوگوں کا سفر کشتی تک محدود ہوکر رہ گیاہے ۔ایک جدید دور اور حکومتی انتظامات کی موجودگی کے باوجود یہ صورتحال قابل صدتوجہ ہے ۔ امر واقع ہے کہ ایک جانب وزیر ا علیٰ خیبر پختونخوا صوبہ بھر میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کااعلان اور افتتاح کر رہے ہیں اور دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ایک معطل شدہ ضرورت سفر کی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے جس سے عوام کی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور چیف سیکرٹری کواس پل کی تعمیر نو و بحالی کو اولین ترجیح دینی چاہئے تاکہ عوام کو آمدورفت کی مشکلات سے چھٹکارا ملے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی