ان کو بس سیاست کی پڑی ہے

خیبر پختونخوا میں مہنگائی میں روز بروز اضافہ اور خاص طور پر آٹے اور مرغی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں جبکہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو سانپ سونگھ گیا ہے۔صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے تمام ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائدکی جارہی ہے اسی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے بھی صرف سیاسی جنگ پر ہی توجہ ہے سانڈ کی اس لڑائی میں عوام براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ارکان کابینہ سمیت پی ٹی آئی کے تمام رہنما اور سوشل میڈیا ٹیم مہنگائی کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے رہے ہیں ۔ بیانیہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ مہنگائی صرف اس لئے آئی کیونکہ عمران خان وزیر اعظم نہیںر ہے۔ صوبائی حکومت جاری مہنگائی کی لہر کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب بیوروکریسی نے بھی آنکھیں موندھ لی ہیں جبکہ ان پر صوبائی حکومت کی نظر بھی نہیں ہے مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کی سیاسی جنگ میں مہنگائی کا ایندھن استعمال کیاجارہا ہے جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑ رہا ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہمہنگائی کا آغاز تو تحریک انصاف ہی کے دور حکومت سے ہوا تھا جس میں بتدریج تیزی آتی گئی محولہ حکومت کو ناتجربہ کاری کا طعنہ دے کر جس طرح معاشی حالات اور مہنگائی کی ذمہ دار ان پر عائد کرتے ہوئے برابر یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اگر حکومت اس وقت کے حزب اختلاف اور آج کی تجربہ کار حکومت کے پاس ہوتی تو اس قسم کی صورتحال کاکم از کم سامنا نہیں کرنا پڑتا مگرکہوار کا وہ مقولہ درست ثابت ہواجس میں یہ دانش بیان کی گئی ہے کہ پر غرور کھیت کبھی بھی لہلائے گی نہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آج مرکزی حکومت تجریہ کاروں کی ہے اور صوبائی حکومت بلندو بانگ دعوے کرنے والے ان پار سائوں کی ہے جن کی حکومت میں آڈٹ رپورٹ کے مطابق مختص بجٹ کے علاوہ 17ارب 86کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کئے گئے ہیں جبکہ121 ارب50 کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں کی گئی ہیں خیبر پختونخوا پنجاب اور سندھ میں آٹا بہت مہنگا ہے مگردستیاب ہے بلوچستان کی صورتحال اس سے بہت زیادہ خراب ہے جہاں گندم کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے اور وفاق و صوبوں سے مدد کی اپیل کی گئی ہے ۔ خیبر پختونخوا میں آٹے کی افغانستان سمگلنگ بحران اور مہنگائی کی واحد بڑی وجہ ہے آٹے کی قلت کے ضمن میںپنجاب حکومت کو مطعون کرنے والوںکی خود اپنی وہاں بھی حکومت ہے بہرحال اس سے قطع نظر افغانستان کو روزانہ کس قدر بھاری پیمانے پر آٹے کی سمگلنگ ہوتی ہے نہ صرف وہ بلکہ اس عمل کے سرغنہ کا بھی بعض میڈیا گروپوں میں نام لے کر تذکرہ ہو رہا ہے مگرکسی کے کانوں پر جونک تک نہیں رینگتی عوام اور میڈیا آٹا سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے چیخ رہے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر صوبائی حکومت اس ذمہ داری کو پوری کرنے پر تیار نہیں جسے کیا نام دیا جائے اس کا اظہار الزام کے زمرے میں آئے گا۔ عوام کی جیبوں پر منظم ڈاکہ پڑ رہا ہے فی کس اور فی خاندان کی جیب پر ڈاکہ پڑ رہا ہے مگر صوبائی اور مرکزی حکومت اپنی سیاسی لڑائی میں مگن ہیں خیبر پختونخوا میں حکومت اور سیاست فرنٹیئر ہائوس اور گورنر ہائوس کی چپقلش اور ایک دوسرے پر الزامات اور ایک دوسرے کے خلاف مظاہروں اور بیانات تک محدود ہو گئی ہے الزام تراشی کے اس ماحول میں عوام کے لئے یہ سمجھنا ہی مشکل ہوتی جارہی ہے کہ آخر ان کو اس حال تک پہنچانے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر دو حکومتیں اس میں شریک ہیں البتہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو دیئے گئے اختیارات میں روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے سیاسی تنازعات سے قطع نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت سیاست کو ایک طرف رکھ کر عوام کو ضروریات زندگی کی اشیاء کی بلاتعطل فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے آٹا بحران درحقیقت صوبائی حکومتوں کی نا اہلی اور انتظامیہ کا مارکیٹ اور بازاروں پر اثر و نفوذ کا نہ ہونا ہے ۔ دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کے مسئلے سے قطع نظر اس وقت کا سب سے سنگین مسئلہ آٹا کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ہے آٹا ہماری خوراک کا بنیادی جزو ہے اس کے دام روزانہ بلکہ اب توگھنٹہ وار بڑھنے کی نوبت آگئی ہے عام آدمی کے لئے آٹا خریدنا ناممکن ہوتا جارہا ہے خدشہ ہے کہ صورتحال پر قابو نہ پایاگیا تو مہنگا ہونے کے ساتھ آٹا ناپید بھی ہو جائے گا اور خدانخواستہ عوام کو پہلے کے ایک موقع کی طرح مجبوراً چوکر کھانا پڑے گا۔ بازاروں میں آٹا کے نرخ سرکاری نرخ سے کہیں زیادہ ہے حکومت اگر فلور ملوں کو سبسڈی پر گندم فراہم کر رہی ہے تو آٹا مل کیوں نہیں رہا۔ اگر فلور ملیں آٹا دے رہی ہیں تو پھر آٹا جا کہاں رہا ہے ‘ گندم کے کوٹے اور آٹے کی سپلائی میں کہاں کہاں بدعنوانی ہو رہی ہے آٹا کہاں سمگل ہو رہا ہے ان سوالات کا جواب ڈھونڈنا ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شاید شامل ہی نہیں دیکھا جائے تو حالات اچانک یہاں تک نہیں پہنچے بلکہ پچھلے سال بھر سے سیاسی ترجیحات کاعوامی مفادات اور عوام کو ترجیح دینے اور ان کی مشکلات کے حل پر عدم توجہ واضح ہے جہاں سیاسی جوڑ توڑ اور آئینی عہدوں اور دفاتر کا ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو وہاں اس طرح کی صورتحال فطری امر ہوتا ہے ۔ سیاسی رہنمائوں کی عوام سے کوئی ہمدردی نظر نہیں آتی بلکہ ان کی پوری کوشش پوائنٹ سکورنگ پر ہے اب مژدہ دیا جارہا ہے کہ یوکرائن سے خیبر پختونخوا کے لئے درآمد شدہ گندم آرہی ہے جس کے بعدصورتحال میں بہتری کی توقع ہے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ایسا ہی ہو لیکن جب تک وہ گندم نہیں پہنچتی تو کیا اس وقت تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جائے گا یا پھر حکومت و انتظامیہ کچھ اقدامات کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنانے کی ذمہ داری پوری کریں گے ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند