مشرقیات

مہنگائی تو مہینوں سے جاری ہے اب مسئلہ قحط کا ہے ،جس غذائی بحران کے بارے میں ہما شما برسوں سے لکھتے آئے ہیں وہ سر پر کھڑا ناچ رہا ہے اور ادھر حکمران اس بات پر تاحال مصر ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔کوئی ان سے پوچھے کہ سب خیر خیریت ہے تو یہ آٹا کہاں چلا گیا جیب میں مانگ تانگ کر اس کے لیے پیسے پورے کر بھی لیے جائیں تو بازار جاکر معلوم ہوتا ہے دو چار سو مزید مہنگا ملے گا یا نہیں ملے گا۔آٹے کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے ہی جانتے ہیں کہ ان کے پیٹ پر کون لات مار رہاہے۔مرکز میں بیٹھنے والے ہوںیا صوبائی دارالخلافہ کے حاکم وقت سب ہم لوگوں کو ماموں بنانے کے چکر میں ہیں ادھر ماموں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہاہے۔افغانستان کو گندم بھیجنے والے کوئی اور نہیں ہمارے تمہارے حکمران ہی ہیں ان کے گماشتے جو مختلف اداروں میں گریڈ کے حساب سے اپنا اپنا حصہ وصول کر تے ہیں سرحد پار کی اس کارروائی میں پوری طرح شریک ہیں۔اس لیے پشاور کی مارکیٹ ہو یا اس صوبے کا کوئی بھی دوسرا چھوٹا بڑا شہرہر جگہ لوگ آٹے کو چھان رہے ہیں مگر یہ لقمہ ہاتھ نہیں آرہا۔اس لیے کہتے ہیں کہ اس ملک کے ادارے ہوں ،حکمران یا تاجر یا پھر عام لوگ سہی سب ایک دوسرے کو لوٹنے کے موقع کی تاک میں ہوتے ہیں۔ابھی کل پرسوں پنڈی میں دیکھا کہ ایک چھوٹے دکاندار کار میں20تھیلے آٹے کے اٹھا کر اسلام آبادمیںاپنی کریانے کی دکان پر پیچنے کے لیے لے گئے ،پنڈی سے انہوں نے 2ہزارروپے میں فی تھیلا خریدا اور اسلام آباد کی سرحد پار کرتے ہی یہی تھیلا انہوں نے 3 ہزار میں پیج دیا۔انہیں گھنٹے بھر میں 20ہزار روپے کا منافع ہوگیا۔تو جناب یہ ایک مثال ہے اور آٹے کی اس قحط الرجالی کی بڑی وجہ اس قسم کی لاتعداد مثالیں بھی ہیں۔جب سب اندھی کمائی پر لگے ہوں تو پھر کوئی پروا نہیں کرتا کہ آٹا نابید کیوں ہے کہاں اسمگل کیا جارہاہے وغیرہ وغیرہ بلکہ آٹے سے اندھی کمائی کرنے والے تو دعا مانگ رہے ہیں کہ یہ بحران جاری رہے تاکہ وہ رمضان والا ثواب رمضان سے قبل ہی کما سکیں۔ہمارے ایک دوست کے بقول ابھی آٹے کا بحران تھمنے کا کوئی امکان نہیں ہے جب کوئی ایساامکان نظر آئے تو ساتھ ہی چینی یا گھی کے بحران کے آثار بھی نظر آجائیں گے ہو سکتاہے ہمارے ہاں کے فرشتے اور ان کی روحیں اس بار رمضان میں بحرانوں کا ایسا تڑکا لگائیں کہ یار لوگ اگلے پچھلے سارے ریکارڈ بھول جائیں۔ حرف آخر یہ کہ ہمارے ہاں کے معاشی حالات خراب سہی اس میں کوئی کلام نہیںتاہم ان حالات کو خراب تر کرنے میں بیورو کریسی اور سرکار جو نااہلی دکھا رہی ہے اس میں بھی کوئی دو آراء نہیں۔کپتان کے کھلاڑی ہوں یا میاںصاحب کے متوالے یا پھر سب پہ بھاری کے جیالے اپنی اپنی راجدھانی میں اندھیر نگری چوپٹ راج کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟