بھارت میں عیسائی بھی غیر محفوظ

ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے ریاست چھتیس گڑھ کے شہر نارائن پورمیں چرچ پر حملہ کردیا۔ ڈنڈا بردار انتہا پسندوں نے چرچ میں توڑپھوڑ کی اور نقصان پہنچایا۔ ہندو انتہا پسندوں نے چرچ میں موجود لوگوں، پولیس اہلکاروں اور صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا، ہجوم تشدد اور توڑپھوڑ کی ویڈیو بھی بناتا رہا۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں مسیحی برادری کو ڈرا دھمکا کر زبردستی مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو مسیحی کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، یہاں تک کہ مختلف علاقوں میں چرچوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ عیسائیوں پر بڑھتے ظلم کی وجہ ہندو انتہا پسندانہ سوچ ہے جس کی وجہ سے مسیحی اقلیت خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔ حال ہی میں بھارتی ریاست کرناٹکاکے ضلع منڈیا کے ایک سکول میں کرسمس کی تقریبات جاری تھیں کہ اِسی دوران ہندو انتہا پسند گروپ کے کارندوں نے سکول پر دھاوا بول دیا، سکول انتظامیہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور کرسمس پارٹی کو بزور طاقت رکوا دیا۔ سکول انتظامیہ کے مطابق کرسمس کی تقریب کا اہتمام طالب علموں کی جانب سے اپنے مسیحی ساتھیوں کے لیے کیا گیا تھا جسے زبردستی بند کروا کر بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہندو انتہا پسندوں نے گڑہ کے ایک گاؤں میں بھی کرسمس کی تقریبات پر حملہ کر کے نقصان پہنچایا۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے انتہا پسندی پر مبنی نعرے بھی لگائے۔ آگرہ میں سانتا کلاز کا پتلا نذر آتش کر دیا گیا جب کہ سانتا کلاز کا لباس پہننے پر سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
ہندو انتہا پسند مسیحی کمیونٹی کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبورکر رہے ہیں۔ عیسائیوں نے انتہا پسند ہندوں کے حملوں سے بچنے کیلئے خود کو ہندو ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہندو انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی نسل کشی پر بھی خاموش ہیں۔ اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھارتی وزیراعظم کی خاموشی پر عالمی برادری کو شدید تحفظات ہیں۔ ان کے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ بھارت کو قوم پرست ملک بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔انڈین نیشنل کانگریس کی جنرل سیکرٹری پریانکا گاندھی نے کہا کہ اِس قسم کی نفرت اور تشدد کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے۔
سنگھ پریوارنے جہاں عیسائی اقلیت کیخلاف وشوا ہندو پرشید اور بجرنگ دل کو استعمال کیا وہیں ہندو جاگران منچ اور دھرما رکشانا سمیتیجیسی تنظیموں کی بنیاد بھی ڈالی جن کا مقصد صرف اقلیتوں کو ختم کر نا تھا۔ صوبہ مہاراشٹر کے شہر ناسک میں انتہا پسند ہندو رہنما و دیا شنکر بھارتی کی قیادت میں 10ہزار جنونی ہندوؤں کے اجتماع نے باقاعدہ ایک تقریب منعقد کر کے 37 عیسائیوں کو ڈرا دھمکا کر ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا، اِس حوالے سے نیشنل کونسل آف چر چز فار انڈیا کے سربراہ راجہ رتنم نے احتجاج کیا اور سنگھ پریوار کیخلاف کافی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا:انتہا پسند ہندو اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو بھارت کے تقریبا چار کروڑعیسائی اپنی بقا کے لیے مسلح جد و جہد کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔
اِسی طرح بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں گذشتہ برس 23 دسمبر کو ہونے والے ایک حملے میں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کے مشتبہ شدت پسندوں نے کو کراجھار اور سونت پور اضلاع میں کئی گاں میں حملے کر کے تقریباً 70 قبائلیوں کو قتل کر دیا تھا۔ قبائیلیوں کے مارکے جانے کی وجہ سے وہاں کرسمس کا تہوار نہیں منایا گیا۔ آسام اور مغربی بنگال کی سرحد پر واقع قصبے میں قومی شاہراہ سے ملحق ایسے سینکڑوں گھر اور سکول دیکھے گئے جن پر گولیوں کے نشان تھے۔ مقامی پولیس آسام میں بوڈو شدت پسندوں کو روکنے میں ناکام رہی۔
بیشتر معاملات میں حملہ آوروں نے چرچ میں عبادت کے دوران مسیحیوں کو نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے ایک پادری اور اِس کے چھ سالہ بیٹے پر اِس لیے حملہ کردیا کیونکہ وہ ایک گھر میں تعمیر کردہ گرجا گھر کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ حملہ آوروں نے پادری کی بیٹی کی بے حرمتی بھی کی۔ اترپردیش کے کنڈا تھانہ میں300افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے چرچ میں عبادت کے دوران حملہ کردیا جبکہ پولیس نے بھی چرچ کے پادری کو مارا پیٹا اور اس پر چرچ کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کا جھوٹا الزام عائد کردیا۔
مدھیہ پردیش میں عیسائیوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مسیحی آبادیوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ کرسمس پر بھی ہندو تنظیموں نے عیسائیوں پر حملے کیے ہیں۔ ریاست اتر پردیش میں بھی تبدیلی مذہب کے نام پر سوال سر اٹھا رہے ہیں۔منسٹر آف جسٹس کرائسٹ تنظیم کے شیبو تھامس الزام لگاتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں عیسائی کمیونٹی پر حملے ریاست میں بی جے پی حکومت کے بننے کے ساتھ ہی تیز ہو گئے تھے لیکن مرکز میں مودی حکومت کے آنے کے بعد یہ مزید بڑھ گئے ہیں۔
بھارت میں عیسائیوں کی تعداد دو فیصد کے قریب ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں بھارت میں حالیہ مذہبی انتہا پسندی کا یہ خونریز سلسلہ ہندو سیاسی قیادت کی وجہ سے ہے جبکہ بعض لوگ اِسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سستی قرار دے رہے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اِسے دہائیوں سے جاری پس پردہ لسانی اور زمینی تنا زعات کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں سے اطلاعات ہیں کہ ہندو انتہا پسند تلواریں اور کلہاڑیاں لے کر عیسائیوں کے گھروں میں داخل ہوکر انہیں مندر لے جاتے ہیں جہاں ان کے سر کے بال مونڈ کر پوجا کروائی جاتی ہے،پھر زبردستی ہندو بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد