مشرقیات

ہم ایک مسئلے سے مسائل پید اکرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے بقول شخصے ہمارے ہاں تو شادی بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے جس سے ہم مسائل ہی پیدا کرتے ہیں۔اسی وجہ سے ہمارے ہاں ”مسائل ”کا وہ بوجھ نظر آرہا ہے جو کسی سے اٹھائے نہ اٹھے۔مسئلہ یہ نہیں کہ آبادی بہت بڑھ گئی ہے مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کے اس تیز رفتار اضافے کو ابھی تک تمام تر کوششوں کے باوجود کسی نے مسئلہ ہی نہیں سمجھا۔ہمارے ایک جاننے والے آج کل اس حوالے سے اتنے پریشان ہیں کہ کھلے عام شادی کرنے والے جوڑوں کو بچے پیدا نہ کرنے کی تلقین کر رہے ہیں ان کی تلقین شاہی کس پر کتنا اثر کرتی ہے یہ ہم نہیں جانتے تاہم بچے پیدا نہ کرنے کے حوالے سے جو ٹھوس دلائل وہ دیتے ہیں انہیں صرف”جتنے بچے اتنے اچھے”کے نعرے کے شوقین حضرات ہی مسترد کر سکتے ہیں۔اور یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ اسی نعرے سے متاثر ہیں۔دو بچے ہی اچھے کے سرکاری نعرے کا حال آپ اپنے ہاں کی تئیس کروڑ کی آبادی کو دیکھ کر خود ہی مشاہدہ کر لیں۔اپنے سماج کی پرورش جس نہج پر ہوئی ہے اس میں آبادی کو روکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہم پدرسری معاشرے کے خوشہ چین ہیں ہمارے ہاں مرد حضرات تو ایک طرف خواتین تک بیٹوں کی فوج ظفر موج کی خواہاں ہوتی ہیں۔سسرال اور شوہر کو خوش کرنا الگ خود خواتین بھی بیٹے کی ماں بن کر پھولے نہیں سماتیں ،ایسے ہی بیٹی پید اہوجائے تو ان کے چہرے مرچھا جاتے ہیں۔بیٹوں کی خاطر مدارت میں بیٹیوں کی حق تلفی کی باتیں گھاتیں تو ہر گھر کا حصہ ہیں۔وہ جو وراثتی جائیداد میں ڈنڈی ماری جاتی ہے اس کا زیادہ تر شکاربیٹیاں ہی ہوتی ہیں۔ توجناب اس قسم کے سماج میں جہاں بیٹو ںکی خواہش میں شادی کی جاتی ہے وہاں بچے نہ پیدا کرنے کی تلقین کے اثر انداز ہونے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا آپ کے پاس حالات کے مطابق کتنے ہی ٹھوس دلائل ہوں ان کا ”جتنے بچے اتنے اچھے”کے نعرے کے شوقین حضرات پر کوئی اثر نہیں ہونا۔کیا آپ نے سرکار کے” دو بچے ہی اچھے”کا حال نہیں دیکھا۔ سرکار نے تو پھر بھی دو بچوں کی اجازت مرحمت فرما دی تھی سرے سے بچے پیدانہ کرنے کی تلقین پر کوئی کان ہی نہیں دھرے گا۔مان لیا کہ مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ہم لوگوں کی ایک بے مقصد بھیڑ بھاڑ جمع کر چکے ہیں ان کی تعلیم وتربیت کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں نہ ہی کوئی اہلیت۔دنیا بھر کی قوموں میں ہم کہیں پیچھے اسی لیے کھڑے ہیں کہ ہم نے کروڑوں لوگ پیدا تو کر لیے تاہم انہیں کسی کام جوگا بنا نہیں سکے ایسے میں اگلے دس بیس سال میں بھی صاف نظر آرہاہے کہ ہم کروڑوں افراد کا اضافہ کرکے مسائل کو ہی جنم دیں گے حل ہمارے پاس قطعی نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟