کامیاب جینوا کانفرنس

پاکستان میںمتاثرین سیلاب کے لئے جنیوا میں منعقدہ عالمی کانفرنس کے دوران عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان کو 10 ارب57کروڑ ڈالر امداد دینے کا اعلان کرکے ڈھارس بندھائی ہے ۔ کانفرنس موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کی صلاحیت رکھنے والا پاکستان کے عنوان سے ہو رہی ہے۔یہ یقین دہانی اور اعلانات پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ کوششوں کاثمر ہے۔ پاکستان کوامداد دینے کا یہ عمل اعتماد کامظہر ضرور ہے اور حوصلہ افزاء بات ہے البتہ اس کے بعد یہ سوال بہرحال اپنی جگہ اہم ہے کہ یہ رقم کب تک ملے گی اور اس دوران ملک میںسیلاب زدگان کی بحالی اور امداد کے سلسلے میں حکومت اپنے وسائل سے کتنا کچھ کر پائے گی اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ متاثرین سخت مشکلات کا شکار ہیں۔پاکستان کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زرعی بحالی کے لیے عالمی امداد کی اشد ضرورت ہے متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ گھروں، دیگر ڈھانچے کی تعمیر کے لئے 2.8 ارب ڈالر درکار ہیں’سماجی تحفظ’ روزگار’ ذرائع روزگار کی بحالی کے لئے 1.7ارب ڈالر کی ضرورت ہے’ پانی’ نکاسی آب اور حفظان صحت کے لئے32کروڑ70لاکھ ڈالر درکار ہیں، ٹرانسپورٹیشن شعبے کی بحالی کے لئے 2.6ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے آبی وسائل’ آبپاشی کے لئے 35 ارب20کروڑ ڈالر فی الفور درکار ہیں توانائی اور دیگر امور کی بحالی کے لئے 1 ارب77کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے۔آدھی رقم کا پاکستان اپنے وسائل سے بندوبست کررہا ہے جبکہ پاکستان کو 16.3 ارب ڈالرز کی باقی رقم عالمی برادری سے درکار ہے۔اس کانفرنس نے نہ صرف یہ کہ گزشتہ برس کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی طرف دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کرائی بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور اس سلسلے میں ترقی یافتہ قوموں کی ذمہ داریوں اور اس مسئلے سے نمٹنے کی مساعی میں ان کی جانب سے حصہ ڈالنے کے عمل کو بھی کامیابی سے اجاگر کیاگیا جس کے نتیجے میں عالمی برادری تیس کروڑ سے زائد سیلاب زدگان کی امداد کے لئے سخاوت کے ساتھ متوجہ ہوئی۔قبل ازیں مصر میں جاری اقوام متحدہ کے تحت کوپ27کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ غریب ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لئے فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کرلیا گیاتھا۔تاہم اس کانفرنس میں فنڈ کے بارے میں بہت سے متنازع امور کا فیصلہ آئندہ برس پر چھوڑ دیاگیا تھا جب ایک عبوری کمیٹی نومبر 2023میں کوپ28موسمیاتی سربراہی اجلاس میں سفارشات پیش کرے گی۔کانفرنس میں تاحال فیصلہ نہیں ہوا کہ رقم کون ادا کرے گا اس لئے اگلے برس ہونے والے اجلاس میں فنڈ کو وسیع پیمانے پر پھیلانے اور رقم ادا کرنے کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ ان خوش آئند صورتحال کا عملی طور پر جائزہ لیا جائے تو ہنوز پرنالہ ادھر ہی گرتا ہے کیونکہ اصل بات وعدہ نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کا ہے قبل ازیں بھی موسمی شدائد سے متاثرہ ممالک کی عملی مدد کے لئے رقم یا زرتلافی دینے پر اتفاق کیاگیا تھا مگرمتاثرہ ممالک کو مطلوبہ فنڈز نہیں مل سکے تھے۔موسمی تغیرات سے متاثرہ پاکستان کے لئے عالمی برادری کی طرف سے امداد کا ا علان خوش آئند امر ہے البتہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات، تباہی اور اس کے خلاف موافقت سے متعلق اقدامات کے لیے عالمی دنیا اور اداروں سے مالیاتی وعدوں پر تیزی سے عمل در آمد اور تکمیل کی ضرورت ہے عالمی برادری کی طرف سے امدادی فنڈز لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے بہت اہم ہیں لیکن وہ ہماری تعمیر نو کی ضروریات میں مدد نہیں کر سکتے۔اس کے لئے پاکستان کو مزید وسائل کی ضرورت ہو گی جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا، وہ یقینی طور پر صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گالہٰذا ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت میں بڑی کمی اور کوتاہی کو پورا کرنے کے لیے طویل مدتی موسمیاتی فنانسنگ پروگرامزکی ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے عمل سے تنہا کوئی بھی ملک مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں خاص طور پرمعاشی مشکلات کاشکار ملک پاکستان کے لئے تو یہ سرے ناممکن بات لگتی ہے صورتحال عالمی سطح پر اقدامات کی متقاضی ہے جس کا ادراک حوصلہ افزاء امر ہے ماحولیاتی تنزل کے حوالے سے 1992ء کے معاہدے کی تحت ترقی پذیرممالک کواس سنگین صورتحال سے بچانے کے لئے ترقی یافتہ اور بڑے صنعتی ممالک کو اپنا بڑا حصہ ادا کرنا چاہئے۔مگر عملی طور پر صورتحال مایوس کن ہے ۔2013ء میں ہونے والے پیرس معاہدے میں ترقی یافتہ ممالک کی مدد سے سو بلین ڈالرز کے جس امدادی فنڈ بنانے کے عزم کا اظہار کیاگیا تھا اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس ضمن میں قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔2017ء کے ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پندرہ ملین ڈالرز کی امداد دی گئی جبکہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے ضرورت تقریباً پندرہ بلین ڈالرز کی ہے۔ حکومت پاکستان نے2018 میں کل محفوظ علاقوں کو بارہ فیصد سے بڑھا کر پندرہ فیصد کرنے کے مقصد کے ساتھ محفوظ علاقوں کے اقدام کا آغازکیا اور یہ ہدف حاصل کیا گیا پاکستان سب سے بڑا موافقت کا پروگرام لیونگ انڈس انیشی ایٹو انتہائی اہمیت رکھتا ہے یہ اقدام 25 علاقوں میں شروع ہوگا تاکہ کمیونٹیز کوسیلاب کے انتظام اور دریاکو آلودہ ہونے سے بچایاجا سکے ۔ پاکستان کو متاثرہ روزگار اور آمدن موسیماتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے بنیادی ڈھانچے ‘ موسمیاتی تبدیلی کے خطرے اور وارمنگ سسٹمز کے لئے وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بحالی کے لئے کلائمیٹ فنانس کی ضرورت ہے ۔جو دنیا کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟