افغانستان خواتین کرکٹ

افغانستان کا خواتین کرکٹ سے وابستگی کا مسلسل فقدان، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کیلئے باعث تشویش

افغانستان کی خواتین کی کرکٹ سے وابستگی کا مسلسل فقدان بالآخر آئی سی سی کے لیے ایک باعث تشویش بن گیا ہے، کیونکہ عالمی ادارہ اس ہفتے کے آخر میں اپنے پہلے انڈر 19 ویمنز T20 ورلڈ کپ کے انعقاد کی تیاری کر رہا ہے۔ افغانستان واحد فل ممبر ہے جس نے جنوبی افریقہ میں ہونے والے ایونٹ میں نمائندگی نہیں کی جس میں 16 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد بھی خواتین کی کرکٹ نے ملک میں کوئی پیش رفت نہیں کی ہے اور اس بات کے آثار ہیں کہ مستقبل قریب میں ایسا نہیں ہوگا، جس سے آئی سی سی کو اس معاملے کو اپنے مارچ میں ہونے والے اگلے بورڈ اجلاس میں اٹھائے گا۔ عالمی گورننگ باڈی نے 2021 میں طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد افغانستان میں کرکٹ کا جائزہ لینے کے لیے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا تھا۔ آئی سی سی کے ڈپٹی چیئرمین عمران خواجہ کی سربراہی میں اس گروپ نے گزشتہ سال نومبر میں افغانستان کی حکومت اور کرکٹ حکام سے ملاقات کی تھی، جس میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین شامل تھے۔ حکومت نے مبینہ طور پر آئی سی سی کے آئین کی تعمیل کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا، جس میں خواتین کی کرکٹ کی ترقی کے لیے اصولی طور پر اتفاق کرنا بھی شامل ہے۔لیکن حقیقت میں خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی ترغیب دینے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ افغانستان نے اپنے ڈومیسٹک کرکٹ ڈھانچے کو وسعت دینے اور کرکٹ کو نئے خطوں میں لے جانے کی باقاعدہ کوشش کی۔ افغانستان میں مردوں کی کرکٹ کے تمام فارمیٹس میں چھ ٹورنامنٹس ہیں، جونیئر سے لے کر سینئر سطح تک۔ لیکن ابھی تک، خواتین کی کرکٹ میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے، اور افغانستان واحد کرکٹ کھیلنے والا ملک ہے جس نے اپنی بنیادی ضروریات میں سے ایک کو پورا کیے بغیر مکمل ممبر کا درجہ حاصل کیا ہے اور وہ بنیادی ضرورت افغان کرکٹ ٹیم کی ہے، صورتحال اس وقت زیادہ تشویشناک ہوئی جب طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی کے حکم جاری کردیا، یہ حکم آئی سی سی کے سی ای او جیف ایلارڈائس کے مطابق، تشویشناک ہے۔اس حوالے سے افغانستان کرکٹ بورڈ کے سابق ڈائریکٹر اسد اللہ نے ایک ویب سائٹ کو بتایا کہ ”افغانستان میں خواتین کی کرکٹ ہمیشہ سے ایک سلگتا ہوا مسئلہ رہا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ ابھی اس کا کوئی حل ہے،ایک ثقافتی چیلنج ہے، ہمارے پاس کبھی بھی ویمن کرکٹرز کا کوئی بڑا پول نہیں تھا۔ درحقیقت طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی خواتین کی ٹیم کبھی نہیں تھی۔ کچھ لڑکیاں اپنے گھروں میں تفریحی سرگرمی کیلئے کرکٹ کھیلتی تھیں تاہم یہ کبھی بھی میدان میں نہیں اتریں کیونکہ کرکٹ کا طالبان سے قبل بھی کوئی حقیقی پلیٹ فارم نہیں تھا۔”

مزید پڑھیں:  تیسرا ون ڈے: ویسٹ انڈیز ویمنز کا پاکستان کو 279رنز کا ہدف