وزراء کی لگژری گاڑیاں

عوام کیلئے فنڈنہیں،وزراء لگژری گاڑیاں منگوارہے ہیں،چیف جسٹس

ویب ڈیسک :پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشیدخان نے کہا ہے کہ ذمہ داروں کو گھروں سے نکل کرعوامی مسائل کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی۔ عوام رْل رہے ہیں اور یہ گھروں میں بیٹھ کر سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ انکو اپنے گھروں کے باہر کچھ نظر نہیں آرہا لیکن ہمیں نظر آرہا ہے کہ کس طرح یہ عوام مشکلات سے دوچار ہیں مگر ذمہ داروں نے اپنے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ شیشے کے محلات کے باہر بھی ایک دنیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس چترال میں مائینگ و جنگلات کٹائی سے متعلق مختلف رٹ درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔سیکرٹری فارسٹ عابد مجید نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے بعد جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس نے چترال میں مختلف سائٹس اور وہاں پر مائننگ کا دورہ کیا ہے اور کل ہی وہ پہنچی ہے
لہذا انہوں نے کچھ وقت مانگا ہے تاکہ رپورٹ تیار کیا کاجاسکے۔ اپر چترال میں اس لیے لوگوں کو چھوٹے درخت کاٹنے کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ ان کے پاس اس سردی میں ایندھن نہیں ہوتی اور زندگی مشکل ہو جاتی ہے، اس لیے اسے پرمٹ دیئے جارہے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بد قسمتی یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کے جنگلات یہاں سے ٹھیکوں پر دیئے جا رہے ہیں اور وہاں پر مقامی افراد اپنے لئے لکڑی تک نہیں کاٹ سکتے اور رو رہے ہیں کیونکہ جنگلات تو ان کے تباہ ہو رہے ہیں۔ ایک درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ 2017 میں ایل این جی میکس ائیر پلانٹ لگانے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا مگر حکومتوں کی آپس کی چپقلش اور عدم توجہی کے باعث چترال کا منصوبہ گلگلت کو دیا گیا اور اس میں موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہے
مگر اپنے وزراء کیلئے 165نئے مرسڈیز پر آسائش گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ ایک طرف عوامی منصوبے کیلئے فنڈز نہیں ہے دوسری طرف لگژری گاڑیاں منگوائی جا رہی ہے۔ اس دوران ڈی جی معدنیات محمد نعیم نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ سے عدالتی حکم پر تمام لیز پر مکمل پابندی ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ لیز نظام ٹھیک چلے اور کوئی ماحولیاتی مسئلہ پیدا نہ ہو۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈی جی صاحب آپ خود اس سارے کنٹریکٹس کو دیکھیں، کہاں کہاں پر خرابی ہے تاکہ اس کو ٹھیک کیا جا سکے۔
اس دوران ڈائریکٹر جنرل گیس محمد رشید نے عدالت کو بتایا کہ ایل این جی گیس پلانٹ گلگلت کیلئے تھا چترال کیلئے نہیں تھا،60پلانٹس لگانے کا منصوبہ تھا تاہم فنڈز کی عدم موجودگی کیوجہ سے اسے ترک کرنا پڑا جس چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی مفاد کے منصوبوں کوپس پشت ڈال کر حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اسکے جنگلات تباہ ہو جائے ؟چترال بھی اس ملک کا حصہ ہے تاہم چترال کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت میں بیٹھے لوگوں کو کیا معلوم کہ کیا مسئلے چل رہے ہیں، عوام خوار ہو رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور اگر کوئی اپنے لیے قیمتی گاڑیاں لے آتا ہے اورعوامی مسائل پر توجہ نہیں دیتا تو یہ بھی عجیب بات ہے۔
وفاق کیساتھ ساتھ صوبائی حکومت بھی یہاں نظر نہیں آرہی، اپنے گھروں سے باہر دیکھیں عوام آٹے کیلئے خوار ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر عدنان کے کیس میں چیف کنزرویٹر نے عدالت کو بتایا کہ 270 ایکڑ زمین ٹوارزم ڈیپارمنٹ کو دینے کے لیے کہا گیا تھا تاہم اس کے ساتھ یہ بھی شرط لگائی گئی تھی کہ جب یہ کیسز ختم ہو جائے تب دیں گے کیونکہ یہ کیسز چل رہے ہیں تو اس وقت وہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں نے بھی مالم جبہ کو تباہ کردیا ہے، اسے بھی تجارتی انٹر پرائز میں تبدیل کردیا ہے۔
عدالت نے ایبٹ آباد میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کیلئے اشتہار دینے کے احکامات معطل کر دیئے اور ٹی ایم او کو عدالت طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ کسی بھی صورت ایسی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس پر جنگلات ہو ںتاہم سیکر ٹری جنگلات نے عدالت کو بتایا کہ وہ جنگلات کے علاقے میں نہیں آتا اور باقاعدہ طور پر اس حوالے سے سروے کیا گیا ہے۔ عدالت نے متعلقہ حکام کو مکمل رپورٹ پیش کرنیکاحکم دیا جبکہ ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل نیب محمد علی اور ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر طارق شاہ کو چترال میں چلغوزے اور جینیفر کے درخت سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے سماعت 31 جنوری تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں:  بلوچستان میں طوفانی بارشیں ،طغیانی سے نشیبی علاقے زیر آب