بحران تواچھے ہوتے ہیں

چھری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھری پر کٹنا خربوزے کو ہی ہوتا ہے ، یہی حال پاکستانی عوام کا ہے، گندم کا بحران ہو یا چینی کی قلت ، گیس کی کمی ہو یا دن رات بجلی کی آنکھ مچولی ، یہ پاکستانی عوام کا نصیب میں ہے ، قیمتوں میں اضافے کا نقصان عوام نے ہی اٹھانا ہے بحران کوئی اور نہیں گران فروش اور ذخیرہ اندوز مافیا پیدا کرتی ہے،اس سے پہلے اور ہر سال مختلف قسم کے بحرانوں کا سامنا کرنے کے بعد یہ سمجھ آیا ہے کہ یہ تمام بحران پیدا کئے جاتے ہیں تاکہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اپنی کرسی پر وقت گزارا جا سکے ، بحران آٹے کا ہو پٹرول کا ہو یا چینی کا اس کے کسی ذمہ دار کو آج تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا، اس سے پچھلی حکومت ہو یا اس سے بھی پچھلی حکومت یہ بحران آتے رہتے ہیں عوام کے اربوں کھربوں روپے کچھ سرمایہ داروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں ، بحران کے حوالے سے آج تک کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا جس سے عوام کے اربوں کھربوں وصول کیے گئے ہوں ،بلکہ یہی کیس عدالتوں میں سالوں لٹکے رہتے ہیں ،اور کبھی کسی کو ذمہ دار قرار دیا جائے ، تو وہ بھی کوئی کلرک یا ایسے شخص کو قربانی کا بکرا بنا دیاجاتا ہے جس نے کبھی اربوں روپے خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوتے ، ، موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے موروثی سیاستدانوں کے بچے ہی ہیں جن کو وزارتیں اور مراعات مل رہی ہیں ، کوئی اپنے بیٹوں بیٹیوں کو لانچ کر رہا ہے ، تو کوئی بہو، داماد، سمدھی ، بھانجے ، بھتیجوں کو پاکستانی عوام کے مستقبل کا فیصلہ ساز بنانے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے ، مہنگائی کے خلاف پی ڈی ایم کا احتجاج ہو یا سندھ سے نکلنے والا پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ ،سب ہی حکومت میں ہیں ، مگر کسی کو عوام کے مسائل سے مطلب نہیں ہے ، یہاں تک کہ عوام کے لئے حکومت سے حق مانگنے کے لئے اپوزیشن بھی اسمبلی میں موجود نہیں اور اگر علامتی طور پر کچھ موجودگی ہے بھی تو وہ عوام کے لئے بالکل بھی نہیں بلکہ اپنے مفادات اور اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہے ، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہوں ، یا ملک کے چار صوبوں کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ، سب ہی سیاست اور کرسی کی جنگ میں مصروف ہیں ، امریکی سازش اور حکومت کی تبدیلی سے شروع ہونے والا ڈرامہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ، تمام جماعتیں اپنی اپنی سیٹیں پکڑ کر بیٹھی ہیں ،کسی نے اپنی سیٹ چھوڑی نا ہی کسی نے مراعات لینے سے انکار کیا ۔سارے کے سارے غریب عوام کے ٹیکس کی رقم سے مراعات اور تنخواہیں لے رہے ہیں ۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ہونے والی قانون سازی ہی دیکھ لیں ، ہیلی کاپٹر کے استعمال اور ارکان اسمبلی کی مراعات کا بل پاس ہوگیا ، قومی اسمبلی اور سینٹ سے نیب ترامیم کا بل پاس ہوگیا ،ان بلز پر سب متفق ہیں ، اپنے مفادات مراعات اور تنخواہوں کے لئے ساتھ بیٹھنے والے عوام کے لئے نہیں بلکہ مال دولت اور اثرورسوخ کے لئے سیاست کرتے ہیں ، عوام بحران کے پیچھے اور حکمران کرسی کے پیچھے ، یہ کھیل چلتا رہے گا، عوام روٹی ، گیس ، بجلی ، پانی ، گھر ، تعلیم ،ہسپتال ، اور ایسی بنیادی سہولیات سے محروم رہیں گے ، افسر شاہی ، سرمایہ داروں ‘وڈیروں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ان مگرمچھوں کی دولت اور اثاثوں میں اضافہ ہوتا جائیگا۔
آٹے کی قیمت میں اضافے کی خبریں پچھلے ایک ہفتے سے ہر اخبار اور ٹی وی چینلز پر آرہی ہیں ، مگر آٹے کی کوالٹی چیک کرنے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں اور ہوگا بھی کیسے جو سرکاری آٹا دیا جاتا ہے ، سب سے زیادہ اعتراض بھی اسی پر کیا جاتا ہے کہ یہ آٹا ایسے ہی استعمال کے قابل نہیں اس کے ساتھ دوسرا آٹا ملا کر پکایا جاسکتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام اپنے اصلی آٹے میں سرکاری آٹا ملاوٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، یہ تو اپنی جگہ مگر ایسی بھی باتیں سامنے آئی ہیں کہ آٹے میں پلاسٹک کی آمیزش ہوتی ہے آٹے میں پلاسٹک کی ملاوٹ عوام کو آٹے کی جگہ زہر دینے کے مترادف ہے ، جو سرمایہ دار ملز مالکان یا ذخیرہ اندوز یہ قبیح عمل کرتے ہیں وہ یقینی طور پر انسانوں کی شکل میں درندے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت نصیب کرے اور عوام کے حال پر اللہ ہی رحم کرے کیونکہ ہم سب خود بھی ایک دوسرے کا خون چوسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ملک کے طول و عرض میں آٹے کے حصول کے لئے قطاروں کے مناظر پچھلے دو ہفتے سے دیکھنے میں آرہے ہیں مگر دو ویڈیوز ایسی نظر سے گزریں ، جن کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، ایک ویڈیو بلوچستان کی ہے ، جس میں کچھ ٹریکٹر ٹرالیوں میں سرکاری آٹا جو کہ رعایتی قیمت کا ہوتا ہے ، موجود ہے ، اور آٹے کے اوپر لیویز اور گاڑیوں کا عملہ لوگوں کو گاڑیوں سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، اس ویڈیو میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ، اور لوگ آٹے کے حصول کے لئے جان کی بازی لگاتے نظر آرہے تھے ، آٹے کے حصول کے لئے ایسے مناظر جنگ زدہ ممالک میں بھی کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ، مگر دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک میں عوام کی قسمت میں دھکے کھانا ہی لکھا ہے گویا یہ بل جمع کرانے جاتے ہیں تب بھی دھکے داخلہ لینا ہو یا کہیں فارم جمع کرانا دھکے کھانا مقدر بنا دیا گیا ہے ، آٹے کے حصول کی دوسری ویڈیو پشاور کے کسی علاقے میں بنائی گئی ہے ، جس میں سرکاری آٹے کی ٹرک کے پیچھے مرد خواتین اور بچے ایسے بھاگ رہے ہیں جیسا کہ یہ آٹا مفت مل رہا ہو ، برقعہ پوش خواتین کو آٹے کے حصول کے لئے ایسے بھاگتے اور ذلیل ہوتا دیکھ کر دل لرز گیا ،یہ زرعی ملک کی حالت ہے کہ گندم برآمد کرنے کی بجائے عوا م کو ہی آٹا میسر نہیں ۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب