مشرقیات

اللہ خیر وبرکت ڈالے۔مگر سائیںسرکار سے اتنی عرض ہے کہ باہر سے چاہے جتنا بھی فنڈ ملے اندر کھاتہ درست نہ ہو تو مسائل حل نہیںہوں گے۔سرکارکی نیت پرشک کرنا بھی ہم چھوڑ دیتے ہیں مگر ان بابوئوں کا کیا کریں جو کوئی بھی کام کریں اپنا حصہ رکھ کر ہی بسم اللہ کرتے ہیں۔پھر ایک لمبا چکر ہے جو چکر بازیوں سے شروع اور ان ہی پر ختم ہوتاہے۔اربوں ڈالر کا دان دینے والوں نے یہ سب برسراجلاس واضح کر دیاتھا کہ لوٹ مار چھین شاد باد کے ترانے ہی گانے ہیں تو دنیا آئندہ کے لیے کانوں کو ہاتھ لگا کر پکی توبہ تائب ہو جائے گی۔اس بار بھی ہم نے کتنی منت ترلے کرکے اسے امداد کے لیے راضی کیا ہے۔تو جناب اب کسی کو بے وقوف بنانے کا سوچیں بھی مت۔سب نے آپ کو کہہ دیا ہے کہ ہم نظر رکھیںگے مفت کا مال سمجھ کر گل چھڑے اڑائے گئے تو پھر ایک بار کاسئہ گدائی اٹھا کر ہم آپ ہی شرمسار ہوں گے دنیا کا کیا ہے وہ ہمیںدھتکار دے گی۔دوسری بات یہ کہ جب دنیا اتنی بڑے پیمانے پر امداد کا اعلان کرتی ہے تو بدلے میں کچھ اور بھی مانگتی ہے اس میں اب کوئی شک کا امکان نہیں کہ دنیا کو ہمارے خطے میںپرورش پانے والی شدت پسندی کی فکر ستانے لگی ہے۔خود کانفرنس کا اہتمام کرنے والی اقوام متحدہ کے نمائندے نے اسی کانفرنس سے خطا ب کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان کی مدد کرنے میں خود دنیاکا فائدہ ہے اور فائدے گنواتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ایک تو پاکستان کے تئیس کروڑ لوگ مایوس وناامید ہوگئے تو ان میں لاکھوںافراد نقل مکانی کرتے ہوئے چلو چلو یورپ چلو کے نعرے لگانا شروع کر دیںگے اور یورپ جو پہلے ہی مہاجرین کے بحران سے نمٹنے میں ہلکان پڑا ہے سنگین صورت حال کا شکار ہو جائے گادوسرا جتنی امداد پاکستان کو دے کر اس بحران کو ٹالا جاسکتاہے امداد سے منہ موڑ لیا گیا تو مہاجرین کے سیلاب کو روکنے میں یورپی ممالک کو اس سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ایسے ہی اقوام متحدہ کے نمائندے نے پاکستان کی امداد کے لیے ایک اور بڑا جواز یہ دیا کہ پاکستان معاشی بحران کا شکار رہا تو یہاں پہلے سے جاری شدت پسندی کو نیا ایندھن وافر مقدار میںمیسر ہوگا اور اس کا اثر لامحالہ طور پر اس کے ہمسایہ ممالک سے ہوتا ہوا یورپ و دیگر مغربی ممالک تک بھی پہنچ سکتاہے۔ان ہی خدشات کے باعث پاکستان کی مدد کا فیصلہ کیا گیا اور ساتھ ہی لازمی بات ہے کہ اب دنیا نے ایک طرف ہمارے ہاں سے جانے والے غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کا مطالبہ بھی کرنا ہے اور ساتھ ہی شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے بھی اقدامات پر زور دیا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ امداد حاصل کرکے ہم نے جو بیرونی معرکہ سر کیا ہے اس کے بعد اندرونی معاملات میں بھی ہم کوئی کامیاب پیش رفت دکھائیں گے؟کرپشن ،بدامنی اور معاشی بدحالی کا تدارک کرنے کے لیے ٹھوس پالیسی کی ضرورت اب جتنی ہے پہلے کبھی نہیںتھی۔

مزید پڑھیں:  ریگی ماڈل ٹاؤن کا دیرینہ تنازعہ