مہاوت کی ٹھٹرتی سردی میں

گزشتہ روز محکمہ مو سمیا ت کی جا نب سے عوام کو متوجہ کرنے کی غرض سے ایک پرچی جا ری کی گئی کہ تیر ہ جنوری کی شب سے پندرہ جنوری تک کی راتیں پاکستان کی سو سالہ تاریخ کی سرد ترین راتیں اور دن ہو سکتے ہیں ، اسی طرح سعودی عرب کی طر ح دن یا رات میں برفباری بھی متوقع ہے ، محکمہ موسمیا ت کی اطلا عتی پر چی میں جن مقامات پر برفباری کے امکانا ت کا اظہا ر کیا گیا ان میں زیا دہ تر علا قے جنوبی پنجا ب اور کچھ وسطی پنجا ب کے بتائے گئے ، اس سلسلے میں کو کئی احتیاطی تدابیر بھی بتائی گئیں ، وادی پشاور کا درجہ حرارت ہر موسم میں دیگر شہر و ں سے کسی قدر کم ہی رہتا ہے مگر گرمی سردی میں شدت زیادہ محسوس ہو تی ہے ، چنا نچہ اس مر تبہ سردی کچھ جلدی ہی پڑنا شروع ہوئی اور ہندی مہینے ما گھ کے حساب سے کچھ زیا دہ کج ادائی سے وارد ہوئی ہے ۔ ایسی سردی کو مہا وٹ کی سردی کہا جاتا ہے اور یہ ہرجاندار اور غیر جا ندار کو ٹھٹھرادیتی ہے ،یعنی جب سردیاں آتی ہیں تو سردیوں کی چھٹیاں ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔ چنانچہ سردیوں کی چھٹیاں بڑھا دیتے ہیں۔اس مرتبہ بھی ایسا کیا گیا ، بلکہ اس شدید سردی میںجبکہ ہر کوئی فلو جیسے مرض میں مبتلا ہے چھٹیا ں نہیں بڑھائیں گئیں ، سرکا ری پرائمری اسکولوں کا تو یہ حل ہے کہ وہا ں نئے نئے معصوم بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کمر ہ جماعت میں گنجائش سے زیا دہ ہونے کی وجہ طلباء یخ بستہ زمین پر براجما ن ہونے پر مجبور ہیں ، سوچنے کا مقام ہے کہ کمپنی بہادر(ایسٹ انڈیا کمپنی) بھی قصہ ماضی ہو گئی اور بر صغیر میں برطانوی راج بھی ختم ہو گیا لیکن پاکستانی بیو رو کر یسی ہنو ز ایک وفادار رعایا کی طرح نو آبادیاتی آقائوں کے بندو بست پر اندھے، بہرے اور گونگے ہو کر یوں عمل پیرا ہیں گویایہ خوف ہو کہ نے اس نو آبادیاتی بندوبست میں کوئی تبدیلی کر لی تو عبور دریائے شور کی سزا سنا دی جائے گی۔ سردیوں کی جو چھٹیاں ہمارے ہاں تبرک سمجھ کر ‘عین وقت پر’ کی جا تی ہیں یہ یہ اصل میں نو آبادیاتی چھٹیاں ہیں۔ یہ مقامی تعطیلات نہیں ہیں، یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی چھٹیاں ہیں۔ ان کا آغاز 1843 میں بمبئی ریزیڈنسی سے اس وقت کے برٹش گورنر جارج آرتھر کے حکم پر ہوا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی ان چھٹیوں کا سردیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برطانیہ سے بر صغیر آنے والے اہلکاروں کے لیے یہاں کی مقامی سردی سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھی۔مسئلہ یوں تھاکہ برطانوی افسران کی سال کے آخر میں دو مصروفیات ہوتی تھیں۔ ایک کرسمس اور دوسری نئے سال کی۔ چنانچہ گورنر جارج آرتھر نے حکم دیا کہ چھٹیاں اس طرح سے کی جائیں کہ دونوں تقاریب کا آرام اور سکون سے انعقاد ممکن ہو سکے۔چنانچہ یہ چھٹیاں23 دسمبر سے شرع ہوتیں تا کہ کرسمس کی تیاری کے لئے بھی ایک آدھ دن مل جائے اور یہ چھٹیاں یکم جنوری تک ہوتیں تا کہ ‘ہیپی نیو ایئر’ بھی منایا جا سکے۔دسمبر کے آخری ہفتے میں سردی ہو یا نہ ہو چھٹیاں جارج آرٹھر کے فارمولے کے تحت ہی کردی جا تی ہیں یہی معاملہ گرمیوں کی چھٹیوں کا ہے۔یہاں کی گرمی انگریز افسر شاہی کے لیے تکلیف دہ ہوتی تھی۔ بیوروکریسی میں بھی انگریز تھے اور جج تو قریب سارے ہی انگریز تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہم اس گرمی میں یہاں کام نہیںکر سکتے۔چنانچہ کمپنی بہادر نے ان کے لیے گرمیوں کی چھٹیاں تجویز کر دیں۔ اب معاملہ یہ تھا کہ برطانوی ججز کو گرمی کی چھٹیوں میں برطانیہ جانا اور واپس آنا پڑتا اور یہ دورانیہ ظاہر ہے کہ طویل ہوتا۔بحری جہاز سے آنے جانے میں کافی وقت لگتا۔ تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں تین ماہ کی چھٹیاں دی جائیں تاکہ ایک ڈیڑھ ماہ آنے جانے میں لگ جائے اورایک ڈیڑھ ماہ وہ برطانیہ میں قیام کر سکیں۔گرمیوں کی تعطیلات کا یہ دورانیہ بعد میں پاکستان میں بھی نافذ العمل ہو گیا اور اعلی عدلیہ میں تعطیلات دو تین ماہ ہی ہوتی ہیں۔ اگر چہ ان تعطیلات میں عدالت بالکل بند تو نہیں ہوتی لیکن بہر حال چھٹیوں کا دورانیہ یہی ہوتا ہے۔ بچوں کے تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات سمجھ میں آتی ہیں لیکن جہاں دفاتر میں اور حتی کہ راہ داریوں میں بھی ایئر کنڈیشن کام کرتے ہوں وہاں ان نو آبادیاتی تعطیلات کا کوئی جواب سمجھ سے باہر ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے آج سے ڈیڑھ پونے دو سو سال قبل جو کر دیا اسی کو معیار حق اور آخری آفاقی صداقت سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ برطانوی نو آبادیاتی دور میں جہاں ہمیں غلامی کے آداب سکھانے کے لیے ”انگلش ایٹی کیٹس فار انڈین جنٹلمن” جیسی کتابیں لکھی گئیں وہیں ان آداب غلامی پر مکمل دل جمعی سے عمل پیرا ہونے والی رعایا کے لیے ”اچھے مسلمان” کی اصطلاح وضع کی گئی۔برطانوی راج ختم ہو گیا لیکن لیکن غلامانہ فیصلہ سازوں میں آج بھی”سلطنت برطانیہ کا وفادار اور اچھا مسلمان” بننے کا گویا ایک مقابلہ سا جاری ہے۔ یورپ میںکرسمس کے حوالے سے چھٹیاں کافی دنوں کے لیے ہو تی ہیں پاکستان اسلامی ریا ست میں عید الفطر اور عید الاضحی پر صرف دو تین چھٹیاں دی جاتی ہیں ۔جیسا کہ غلامی کے دور میں ہوتا تھا ۔حکومت ذرا تکلیف کر ے کہ اسپتالوں کا ریکا رڈ دیکھ لے کہ کس قدر طلباء اس ٹھٹھرتی سردی کاشکار ہو کر نمونیہ، فلو اور دوسری بیما ریوںکا شکا ر ہو رہے ہیں اسی طرح بڑوں میں فالج ، ہارٹ اٹیک ، نزلہ زکام ، نمو نیہ کے امر اض کسی تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات