کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ جنیوا کانفرنس کی کامیابی عوام کی دعائوں اوراتحادی حکومت کے اخلاص کا نتیجہ ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی تک کوششیں جاری رکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ رقوم ہیں جن کا جنیوا کانفرنس میں اعلان کیا گیا جہاں پاکستان کے عوام اور حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا، اگر انہیں پاکستان میں ان رقوم کی خوردبرد کا خطرہ ہوتا یا ہمارے مخالفین کے پروپیگنڈے پر کان دھرے ہوتے تو یہ لگ بھگ10ارب کے اعلانات نہ ہوتے۔ان کا کہنا تھا کہ قوم میں تقسیم در تقسیم پیدا کیے جانے کے باوجود جنیوا میں سب نے دیکھا کہ صرف وفاق نہیں تمام صوبے موجود تھے اور پوری دنیا کو قومی یگانگت کا پیغام گیا، اس کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہنی چاہیے کہ یہ مخلوط حکومت ہے جس پر عوام اور دنیا نے اعتماد کیا ہے۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جب یہ رقوم پاکستان کو موصول ہوجائیں گی تو تمام صوبوں کو نقصان کے مطابق حصہ دیا جائے گا۔ صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا’ اس کے بعد بلوچستان’ پنجاب کے جنوبی اضلاع اور خیبرپختونخوا متاثر ہوئے۔اس موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں مخلوط حکومت کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ ہم نے8ماہ مل کر جو محنت کی اس کا پھل نظر آرہا ہے وزیر اعظم کی خارجہ پالیسی کامیاب ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے ذریعے ایک تیر سے 2شکار کیے ہیں پوری دنیا پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوئی اور ہم نے نہ صرف ہدف سے زیادہ امداد حاصل کی بلکہ اس دعوے کو بھی غلط ثابت کردیا کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا ہے۔عالمی برادری کی طرف سے امداد کے اعلان کو حکومت ایسے پیش کر رہی ہے گویا سارے سیلاب زدگان اور متاثرین کو امداد مل چکی اور ان کی بحالی کا کام بھی پوری طرح مکمل ہو گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں حقیقت یہ ہے کہ اس امداد کے آنے میں ابھی سال ڈیڑھ سال لگیں گے اور پوری امداد ملتی ہے یا نہیں اس حوالے سے بھی کوئی پیشگوئی کرنامشکل ہے وزیر اعظم نے اپنی کانفرنس میں خیبر پختونخوا کا نام آخر میں لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا خیبر پختونخوا سب سے کم متاثرہ علاقہ ہے حالانکہ ہمارا تقریباً پورا صوبہ متاثر ہوا ہے اور وزیر اعظم جنوبی پنجاب کاتذکرہ پہلے کر رہے ہیں بہرحال قطع نظران امور کے خوشی کے اس موقع پر چاہئے تو یہ تھا کہ وزیراعظم پورے ملک کے سیلاب زدگان کو تسلی اور یقین دہانی کراتے قطع نظر اس کے کہ جب تک امدادی رقوم کی آمد ہو گی متوقع طور پر اس وقت تک ملک میں نگران حکومت آچکی ہو گی یا پھرانتخابات کے بعد عوام نئے نمائندے چن چکے ہوں گے اور نئی حکومت سازی ہو چکی ہو گی بنابریں امدادی رقوم کے عمل کو ایک طرف رکھ کر اگر پریس کانفرنس میں اظہار خیال کاجائزہ لیا جائے تو توپوںکا رخ سیاسی مخالفین کی طرف تھااس میں وزیر خارجہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا یہ درست ہے کہ ملک کے خدانخواستہ دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار حزب اختلاف کی طرف سے ضرور ہوتے رہے لیکن ان کو امدادی رقوم کے حصول میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرنا درست نہیں تھا بلکہ دنیا کے سامنے جو بات حکومت نہیں کر پا رہی تو حزب اختلاف نے بے شک سیاسی مخاصمت میں ہی کی ہو ان مشکلات کو ضرور پیش کیا جس سے اس وقت ملک دوچار ہے بہرحال قطع نظراس کے حکومت نے بہرحال عالمی برادری کو درست انداز میں باور کرانے میں کامیاب ہوئی اور نتیجتاً عالمی برادری حکومت اور عوام کی مشکلات و ضروریات سے آگاہ ہو کر متاثرین سیلاب اور ماحولیاتی تباہ کاریوں کے اثرات سے نمنٹنے کے لئے فراخدلی سے مدد کرنے پرآمادہ ہوئی جسے حکومت کی کامیابی قراردینے میں کوئی حرج نہیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ حکومت نے احسن انداز میں پاکستان اور پاکستانیوں کا مقدمہ پیش کیا اور عالمی برادری نے ہم پراعتماد کیا جس کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمیں عوامی ترقی خوشحالی اورمتاثرین سیلاب کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے اتحاد و یکجہتی سے کام کرکے عوام کے سامنے سرخرو ہونا ہے ۔ عالمی برادری کی طرف سے اعلانات قابل اطمینان ہیں اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوا کہ دنیا کو پاکستان کی اہمیت کا احساس ہے مگر اس موقع پرایک سوال ہمیںاپنے آپ سے بھی یہ پوچھنا چاہئے کہ ہمیں خود کو بھی اپنی اہمیت کا احساس و ادراک ہے اور ان حالات میں من حیث القوم اور حکومت ہماری کیا ذمہ داریاں اور فرائض ہیں بدقسمتی سے ملکی سیاست کی تاریخ انتشار اور عدم استحکام سے عبارت ہے اور یہ اس قدر سنگین معاملہ بن چکا ہے کہ اس کشمکش میں ہماری قومی اور عوامی مفادات بھی پس پشت رکھی جاتی ہیں ہماری قومی تاریخ میں خوشحالی اور ترقی کے وقفے ضرور آئے مگر ان خوشگوار حالات کو ہم مستقل نہ بنا سکے اور استحکام کی منزل کی طرف گامزن نہ ہو سکے ۔بہرحال ہم ماضی کو توتبدیل نہیں کر سکتے مگر اس سے سبق ضرور حاصل کر سکتے ہیں ماضی اگر ہمیں کچھ سکھاتا ہے تو وہ یہ کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے ہم اصلاح کا راستہ اپنائیںاور اپنی سمت درست کریں سیاسی معاملات میں سنجیدگی اختیار کریں اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ قومی اور سیاسی سطح پر موافق حالات پیدا کئے جائیں سیاسی جماعتوں کو اب تو ذمہ دارانہ کردار اور مثبت سیاست کافیصلہ کر لینا چاہئے اور ماضی کے طریقوںکے برعکس ملکی مفادمیں مثبت طرز عمل اختیار کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ سیاسی معاملات کے اثرات سے ملکی ترقی متاثرنہ ہو اور بین الاقوامی دنیا ہمارے داخلی معاملات کے تناظر میں دیکھ کر بداعتمادی کا شکار نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ