سب سے زیادہ بدبخت بیٹا

ویب ڈیسک :تاریخ اسلام میں اصمعی نام کے ایک ادیب گزرے ہیں۔ عربی ادب پر انہیں کمال کی مہارت تھی بلکہ اس دور میں جبکہ لغوی، صرفی اور نحوی قواعد کا اتنا رواج نہیں تھا، یہ اپنے فن کے امام سمجھے جاتے تھے حتیٰ کہ امام شافعی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ عربوں کی تعبیریں اصمعی سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ امام ذہبی نے انہیں امام، علامہ، حافظ اور عربی زبان و ادب کے لیے حجت جیسے القاب سے نوازا ہے۔ ابن خلکان ان کی سیرت کے باب میں فرماتے ہیں کہ اصمعی لغت اور نحو کے امام تھے۔ انہوں نے نادر واقعات کے ذریعے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ ان کی وفات16یا17ہجری میں88سال کی عمر میں ہوئی۔ ذیل میں جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے اس کے راوی بھی اصمعی رحمہ اللہ ہی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں:
”مجھ سے ایک اعرابی(بدو) نے بیان کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ یہ تہیہ کر لیا کہ اس روئے زمین پر چل پھر کر دیکھوں گا اور پتہ لگائوں گا کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ بد بخت اور نافرمان آدمی کون ہے؟چنانچہ میں گھر سے اسی تلاش میں نکلا۔میں نگر نگر،بستی بستی اور قریہ قریہ گھوم رہا تھا اور لوگوں سے اس سلسلے میں معلومات بھی حاصل کر رہا تھا۔اسی دوران میری رسائی اس بوڑھے شخص تک ہوگئی جس کی گردن میں رسی بندھی ہوئی تھی اور وہ ڈول میں پانی بھر بھر کراونٹ کو پانی پلا رہا تھا، اس کے پیچھے ایک جوان تھا جو اس کی گردن میں بندھی ہوئی رسی کو پکڑے ہوئے تھا اور اوپر سے اس کی پیٹھ پر کوڑا بھی برسا رہا تھا۔
میں نے کہا: اے جوان! تو بھی کس قدر بے درد انسان ہے،کیا تجھے اس بوڑھے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے؟ کیا اس بوڑھے کی تکلیف کے لیے یہی کافی نہیں ہے کہ اس کی گردن میں رسی پڑی ہوئی ہے اور یہ اس عمر میں تیرے اونٹوں کو پانی پلا رہا ہے؟ پھر اس کی پیٹھ پر کوڑا برسانا،یہ تو ظلم کی انتہا ہے۔
میری باتیں سننے کے بعد وہ نوجوان بولا:تم کو یہ جان کر اور زیادہ تعجب ہو گا کہ یہ بڈھا میرا باپ ہے۔ یہ سننا تھا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے کہنا شروع کیا کہ اللہ تیرا ناس کرے، کیا کوئی بیٹا اپنے باپ کی یہ درگت بناتا ہے؟ کیا کوئی بیٹا اپنے بوڑھے باپ کو اتنا ذلیل اور رسوا کرتا ہے؟
میرے تبصرے پر وہ کہنے لگا: چپ رہو،اس سلسلے میں اپنی زبان بند ہی رکھو تو بہتر ہے، یہ سلوک میں ہی اس کے ساتھ نہیں کر رہا۔ بلکہ مجھ سے پہلے یہ بھی اپنے باپ کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا رہا ہے۔ مؤرخین کے الفاظ میں اس کے جواب کے الفاظ یہ ہیں:”چپ رہ،یہ بھی اپنے باپ کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا تھا اور اس کا باپ بھی اپنے باپ کے ساتھ ایسا ہی ظالمانہ سلوک کیاکرتا تھا۔”
اعرابی کا بیان ہے: میں نے جب باپ کے ساتھ بیٹے کا یہ وحشیانہ رویہ دیکھا تو مجھے یقین آ گیا میں روئے زمین کے بدترین نافرمان تک پہنچ چکا ہوں۔ اس سے بڑا گنہگار اور اس سے بڑھ کر بدبخت نافرمان اس دھرتی پر اور کوئی نہیں ہو گا۔ (والدین:اطاعت و نافرمانی،واقعات کی زبانی)

مزید پڑھیں:  سوات، پرائمری سکول کے تین کمرے زمین بوس، بچوں کی تعلیم متاثر