عصری مسائل اور ادیبوںکا سکوت

ہمارے ہاں گزشتہ تین چار دہائیوں سے قومی سطح پر مسلسل ایسے واقعات پیش آتے چلے جارہے ہیں کہ جس سے نہ صرف ایک عرصہ تک مُلک بحرانی کیفیت میں مبتلا رہا بلکہ زندگی کے سارے شعبے ہی متاثر رہے اور پوری قوم آئے روز ہر نئے بحران کا شکار ہے ۔سب سے بڑی فکر مندی یہ ہے کہ نئی نسل کی ذہنی تربیت نہیں ہو رہی اور ہم سب بے سمتی میں اُلجھے ہوئے ہیں ۔ آج یہ کالم اس دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ پورے آشوب میں ادب جیسے حساس شعبہ سے تعلق رکھنے والے قلم کاروں اور دانشوروں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہمارے یہاں اُن ادباء کی حد درجہ کمی رہی ہے جو اپنے موقف کی حقانیت اور سماجی زندگی کی بہتری پر ایک دنیا سے جھگڑا مول لے سکیں ۔ ہمارا ادب فی الوقت تقاریب اور سوشل میڈیا کی زینت ہے جہاں تعریف و توصیف کے خوش کن کلمات اور دارو و رسن کے روایتی مضامین کے جلو میں نظر آتا ہے ۔
اب اس صورتحال پر حرفِ شکایت کیوں نہ بلند ہو ۔ کیا اس اجتناب ، غیر وابستگی اور سرد مہری کے پردے میں مصلحت کوشی تو نہیں ۔ ایسے میں کیا یہ مان لیا جائے کہ انہیں اپنے عصری مسائل کی کوئی آگہی اور بصیرت نہیں ہے۔ آخر ہم اپنے’حال’ سے آنکھیں ملاتے ہوئے کیوں جھینپتے ہیں ؟چند اہل فکر دوستوں سے اس مسّلہ پر اکثر وبیشتر بحث ہوتی ہے کہ آیا ادب کا منصب اپنے قارئین تک آگہی پہنچانا ہے یا بصیرت ۔کچھ دوست تو یہی کہتے ہیں کہ ادب بیچارے کا آگہی سے کیا واسطہ کہ یہ تو صرف اہل اقتدار کے پاس ہو سکتی ہے ۔ البتہ بصیرت ہی ایک ایسا مسلک ہے جس کے حصول میں ادب کے قلم کاروں کو تگ ودو کرنی چاہیے ۔ اگر دوستوں کی یہ بات صحیح ہے تو پھرکس نقطہ نظر کے تحت کیونکہ ادب میں نقطہ نظر کی بڑی اہمیت ہے ۔ اسی نقطہ نظر کے فرق سے انسان اپنے آپ کو معروف بھی سمجھ سکتا ہے اور مجہول بھی جاننے لگتا ہے ۔یہ بجا کہ اہل قلم بصیرت پر زیادہ زور دیتے ہیں جبکہ بہت سے تو اپنے دعویٰ جمانے کے مضمرات سے بھی آگاہ نہیں ہوتے ۔ یوںہم اس نقطہ نظر کو زیادہ سے زیادہ تکلف یا مجبوری یا پھر ایک ایسی شرافت تسلیم کر سکتے ہیں جو جرات اور وابستگی کے فقدان سے پیدا ہو۔ ایسی بصیرت پر زور کیوں کہ جرات سے ہاتھ دھونا پڑے ؟ ادب کمزور انسانیت کا ترجمان ہے ، ان کے حقوق کا نگہبان ہے ۔ اگر ادب کا مقصد انسانی زندگی کی تفہیم ہے اور ادیبوں کی اکثریت اپنے عوام کے مسائل، احساسات اور امنگوں کے مطالعے و مشاہدے میں مصروف رہتی ہے تو پھر ہمارے بہت سے ادباء کے تخلیقی شہ پاروں میں ہمت و جرات کی علامتیں اپنے معنوی اعتبار سے تجاہل عارفانہ کی مثل ہو کر کیوں رہ گئیں ہیں ۔ اگرچہ ہماری زرخیز مٹی سے ایسے گوہر نکلے ہیں جنہوں نے اپنے سماج کے درد کو پورے عالم انسانیت کا درد بنا کر پیش کیاہے ۔یوں لگتا ہے کہ نوآبادیاتی دور کی طویل عمل داری کے اثرات اب بھی موجود ہیں کیونکہ اس کی بڑی خرابی یہ بتائی جاتی ہے کہ محکوم سماج میں اہل قلم اپنی فکری روایت کے ایک ایسے جز سے پیار کرنے لگتے ہیں جو انہیں دعوت عمل دینے کی بجائے خوابِ خرگوش میں مبتلا کرنے پر تلا ہوتا ہے ۔ کاش مُلک کے سیاسی ، معاشی اور سلامتی کے مسائل اور بحران کے بارے میں ہر طبقہ فکر کے ادیبوں نے بھی اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہوتا، حقائق بیان کیے ہوتے۔ یہ بات ماننے کو کوئی بھی تیار نہیں کہ ادیبوں اور پڑھی لکھی عوام کے درمیان کوئی تعلق یا پل موجود نہیں ۔وہ لوگ جو حقائق کی کمی ، جذباتی بیانیہ اور سوشل میڈیا کے اثرات کی وجہ سے ایک ایسے موقف پر قائم ہیں جسے وہ مکمل سچ سمجھتے ہیں۔ صحافت نے جہاں خبر دینے کی بجائے لوگوں کی سوچ بدلنے اور کسی کی ایما پر مخصوص نقطہ نظر بیان کرنے کا کام اپنا لیا ہو تو وہاں ایسا ہی تعفن زدہ ماحول پیدا ہو جاتاہے جس میں ہم رہ رہے ہیں ۔ یہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام اپنے دانا و بینا اور وسیع النظر اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں اپنے وسوسوں کی عقدہ کشائی کرتے اور مسائل کا حل ڈھونڈتے۔ سماجی زندگی ان دانشوروں کی تخلیق سے اپنی صورت گری کرتی۔ مگر یہاں ایک عرصہ سے زمینی حقائق کو چھوڑ کر اور کسی سیاسی نظریہ کے بغیر ایک ایسی مہم چلائی جا رہی ہے کہ جیسے ہمارے معاشرہ ایک مثالی اور وسیع النظر زندگی کی تفہیم کا خواست گار ہی نہیں ۔ ہمارے شہروں میں جبر اور تشدد کی حملہ آوری، بے انصافی، بے روزگاری اور سیاسی و معاشی عدم استحکام پر دیدہ ور اہل قلم اور دانشوروں کی خاموشی پر عوام مبہوت ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ مُلک کی غیر یقینی صورتحال میں ادب غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ۔ برصغیر کی سیاست میں ترقی پسندانہ اندازِ فکر اور انسانی ذہن کی توسیع کرنے کو روشن خیالی کا نقطہ نظر بڑی حد ادب کے دروازے سے آیاجو متوسط اور مزدور طبقہ کے ذہنوں میں جاگزیں ہوتا چلا گیا ۔اب جب ہم آزاد ہیں ، بہتر مستقبل کے لیے قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں اور اپنے قومی امراض کی تشخیص کر چکے ہی توپھر قلم اور فکر کے درمیان یہ دیوار کیسی ؟ آگہی کے بغیر بصیرت ممکن نہیں ۔ معاشرے کو تنگ نظری سے بچانا ہے ، مکمل اُجالا کرنا ہے اور کسی انفرادی آراء کی دھنک سے پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں