بیس روپے کی روٹی ملتی کہاں ہے؟

عدالت عالیہ پشاور کی ہدایت کے مطابق انتظامیہ اس امر کی پابند ہو گئی ہے کہ روٹی بیس روپے سے مہنگی نہیں ہونی چاہئے لیکن شاید عدالت میںانتظامیہ کی جانب سے غلط بیانی کی گئی ہو گی کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں روٹی کی قیمت بیس روپے ہے سرکاری طورپررسمی کارروائی کی حد تک کاغذوں میںممکن ہے ایساہی ہوورنہ شہر کے مختلف علاقوںخاص طور پرحیات آباد میں تیس روپے روٹی کی اس وقت سے فروخت جاری ہے جب روٹی کی قیمتوں کاگزشتہ تعین کیا گیا تھا بیس روپے کی روٹی کہاںملتی ہے اس بارے اگر عدالت عالیہ اگلی پیشی میں استفسار فرمائے اور اگر ملتی ہے تو اس روٹی کا وزن کیا ہے اور انتظامیہ نے کتنے وزن کی روٹی کی بیس روپے قیمت مقرر کی تھی اور اس پرعملدارآمد کی کیاصورتحال ہے عدالت اگر اس بارے انتظامی افسران کی بجائے وکلاء برادری اور صحافیوں اور دیگر عوامی نمائندوں سے معلومات حاصل کرے یاپھر معزز عدالت عدالتی اہلکاروں سے مارکیٹ کا سروے کروائے تبھی حقیقی صورتحال سامنے آئے گی عدالت کے سامنے توانتظامی افسران بھیگی بلی بن جاتے ہیں مگر دروازے سے نکلتے ہی ان کو اپنے فرائض اور یقین دہانی یاد تک نہیں رہتی یہی وجہ ہے کہ آٹا بحران ہو یا روٹی کے وزن کامعاملہ کبھی ٹھوس بنیادوں پراقدامات اورکارروائی نظر نہیں آتی حکومت وقت کو اپنی مصروفیات سے فرصت نہیں لے دے کے عدالت سے ہی عوام کی امیدیں وابستہ ہیں بنا بریں اب جبکہ معاملہ عدالت کے زیر نظرہے تو بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ عدالت عوامی مشکلات دور کرنے اور قانون کے نفاذ اور پاسداری کے لئے ایسا جامع اور ٹھوس لائحہ عمل دے گی کہ انتظامیہ کے لئے روگردانی ممکن نہ رہے اور عوامی حقوق کاتحفظ یقینی بن جائے۔
مذاق ہی سہی
چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کم از کم مذاق والے پارٹی الیکشن ہی کروا لے۔ الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن) کے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ چند سیاسی جماعتوں کے علاوہ سب کے پارٹی الیکشن مذاق ہی ہوتے ہیں، مسلم لیگ ن کم از کم مذاق والے پارٹی الیکشن ہی کروا لے۔الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو14مارچ تک پارٹی الیکشن کرانے کی مہلت دے دی۔ملک میں تقریباً ہرسیاسی جماعت میں موروثیت ہے اور وارث و نامزد شخص ہی پارٹی قائد بنتا ہے جسے رسمی طور پر انٹرا پارٹی انتخابات قرار دیا جاتا ہے مگرنون لیگ اس کے لئے بھی تیار نہیں اور مسلسل تاخیری حربے اختیار کررہی ہے جس پر الیکشن کمیشن کی طرف سے اچھا طنز کیاگیا ہے دیکھا جائے تو یہ طنز نہیں بلکہ حقیقت حال کا صراحت سے بیان ہے بہرحال سیاسی جماعتوںکی اندرونی صورتحال سے قطع نظر الیکشن کمیشن کی فرمائش پرسنجیدہ انتخابات اور حقیقی جمہوری مقابلہ کرتے ہوئے کسی عہدیدار کے انتخاب کی جا سکتی ہے ملک میں جماعتی اسلامی کے علاوہ باقی ساری جماعتیںموروثیت یاپھرقائدین کے اشارہ ابرو کاشکار ہیں کم ازکم دکھاوے ہی کے لئے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد ہی ہوتوکم ازکم الیکشن کمیشن کی شرائط پوری ہوں۔
عملدرآمد کاسوال
انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد بالاخر وانا میں سات روزسے جاری دھرنے کا اختتام باعث اطمینان امر ہے ۔ انتظامیہ اگرہزاروں افراد کو سات دن اس سردی میں یوں مشکلات میں ڈالنے اور خود بدنامی کا طوق گلے میں ڈالنے کی بجائے یہی یقین دہانی اگر ہفتہ قبل ہی کرادیتی توکیا مضائقہ تھا باقی انتظامیہ کی یقین دہانی اور معاملات پرگرفت کاکسی کو ویسے بھی یقین نہیں قبل ازیں بھی زبانی کلامی یقین دہانیوں کی حقیقت سے علاقہ عوام بخوبی واقف ہے اب بھی ان کوکسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔توقع کی جانی چاہئے کہ انتظامیہ کی تاز ہ یقین دہانی سنجیدہ ہوگی اور انتظامیہ اس امر کویقینی بنائے گی کہ کوئی بھی ان کی عملداری کو کھلم کھلا چیلنج نہیں کر سکے گا اوروانا بازار میں پولیس کی عملداری داخلی و خارجی راستوں پر سیکورٹی کے اہلکاروںکی تعیناتی کرکے موثرنگرانی کا نظام وضع کیا جائے گا کالے شیشوں کے خلاف موثرکارروائی ہو گی ۔انتظامیہ سنجیدگی کامظاہرہ کرے اور اپنی ذمہ داری پوری کرے تو عوام کویوں سڑکوں پرنکل کرتحفظ مانگنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اصل مسئلہ ہی عدم تحفظ اور انتظامیہ کی ناکامی کا ہے جس کے باعث عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ مجبوراً سڑکوں پر نکلنے پرمجبور ہوتے ہیں۔انتظامیہ کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود عملدرآمد کے سوال کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ سوال بنتا ہے کہ جس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بار بار ایسا کیوں ہوتا ہے اور عوام کو دھرنا دینے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے ۔ہے اس کا جواب کسی کے پاس؟۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟