مشرقیات

رات کا وقت تھا لوگ اپنے اپنے گھروں میں جمع تھے کسی کام سے حضرت طلحہ اپنے گھر سے نکلے وہ اپنے راستے پرجارہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ کوئی شخص ان کے آگے آگے جا رہا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب سڑکوں پرروشنی کا انتظام تھا نہ بڑی بڑی سڑکیں ہوتی تھیں چھوٹے سے شہر تھے ان کی چھوٹی چھوٹی گلیاں تھیں یہ شہرجس کی ایک گلی میں حضرت طلحہ نے کسی کو دیکھا مدینہ النبی تھا حضرت طلحہ کوآگے بڑھے تو اندھیرے ہی میں انہوں نے پہچان لیا کہ یہ عمر بن خطاب ہیں چاہا کہ آگے بڑھ کر ان سے مل لیں حضرت عمر جلدی سے ایک بوسیدہ خیمے میں گھس گئے حضرت طلحہ ان کا انتظار کرتے رہے کچھ دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمر ایک اور خیمے میں گھس گئے حضرت طلحہ سمجھ گئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں جب صبح ہوئی تواس خیمے میں پہنچے جس میں حضرت عمر پہلے داخل ہوئے تھے آواز دے کر اندر گئے تو دیکھا ۔ اس میں ایک بڑھیا رہتی ہے آنکھوں سے اسے دکھائی نہیں دیتا کچھ دیر کے لئے وہ اس کے پاس بیٹھ گئے پھر اس سے بولے ۔۔۔ مائی تیرا کام کاج میں کر دیا کروں؟ اس نے کہا ۔۔۔ نہیں بیٹااب مجھے کسی کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ روزانہ ایک فرشتہ میری خدمت کے لئے بھیجتا ہے وہ میری ضرورت کے سب کام کردیتا ہے حضرت طلحہ نے پوچھا ۔۔۔ تم پہچانتی ہو کہ وہ کون ہے ؟ بڑھیا بولی ۔۔ نہیں بیٹا! میں نے کبھی اس سے نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے جب یہ تفصیل بڑھیا سے معلوم ہوئی تو حضرت طلحہ بے اختیار اپنے دوست کو دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئے صحابہ کرام نے یہ ساری باتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھی تھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوںکے دکھ درد میں شریک ہونے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے جو بوڑھے ‘ بیمار ‘ پریشان حال ہوتے آپۖ خاص طور سے ان کی خبر گیری کرتے ۔ ان کے لئے بازار سے سودا لادیتے ۔حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں آپۖ گھرمیں ہوتے تو گھر کے کاموں میں ہماراہاتھ بٹاتے حتیٰ کہ جھاڑو دیتے ‘ کپڑے سیتے ‘ ابو رافع اسلم کہتے ہیں جب کبھی میں آٹا گوندھتا ہوتا اور آپ کسی کام سے مجھے اٹھا دیتے تو بیٹھ کر میرا آٹا گوندھتے میرے ماں باپ آپۖ پر فدا ہوں آپۖ کو کس درجہ ہم لوگوں کا خیال رہتا ہے ۔
عدی بن حاتم ذکر کرتے ہیں جب میں پہلی مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک بڑھیا آپۖ کے دروازے پرآئی آپۖ اس کے ساتھ نکل پڑے جو الفاظ میں نے آپۖ کی زبان مبارک سے سنے وہ یہ تھے کہ اے خاتون ! توجہاں چاہے مجھے لے جا میں تیرے ساتھ چل کر تیراکام کردوں گا۔
وہ معاشرہ جس میںایک دوسرے کا خیال نہیں رکھا جاتا اس میں اتحاد محبت اور اخلاص کے جذبات کم ہو جاتے ہیں اور لوگوں میں خود غرضی بڑھ جاتی ہے اسلام ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتا ہے جس میں سب ایک دوسرے کے رفیق اور ساتھی ہوں۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!