پشاور بچائو

خیبر پختونخواکے مختلف علاقوں کے سیلاب اور زلزلہ سے متاثرہ افراد اور امن وامان اور کاروبار کی تلاش کے لئے دوردرازعلاقوں سے آبادی کی پشاور منتقلی کے باعث پشاور کی آبادی خطرناک حدوں کو چھونے لگا ہے ۔ لوگوں کی تعداد میں یہ اضافہ 2010ء کے بعد سے تیزی سے جاری ہے بغیر منصوبہ بندی کی منتقلی سے مقامی لوگوں کیلئے مختص وسائل بھی خطرناک شرح کے ساتھ کم ہو رہے ہیں شہر میں پانی اور بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے جبکہ گھروں کے مکانات کا کرایہ بھی مقامی لوگوں کی دسترس سے باہر ہوگیا ہے دکانوں کا کرایہ بھی لاکھوں روپے تک پہنچ گیا ہے شدید رش کی وجہ سے لوگوں کیلئے پیدل چلنا بھی مشکل ہو رہا ہے ۔جبکہ شہر کے آس پاس سبزہ ختم اور ہائوسنگ سوسائٹیز کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے ہر قسم کے لوگوں کی رہائش کی وجہ سے پشاور میں امن و امان کا مسئلہ بھی گھمبیر ہو رہا ہے اور لوگ شام کے بعدگھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہیںبڑھتی آبادی اور آٹا کی سمگلنگ کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹا کی طلب ورسد میں اضافہ ہوا ہے اس طرح پشاور کو پانچ لاکھ لٹر سے زائد دودھ کی یومیہ ضرورت ہے لیکن مارکیٹ میں صرف 2 لاکھ لٹر دودھ مقامی طور پر اور باقی دودھ پائوڈر یا کسی اور صوبہ یا شہر سے منگوا کر پوری کی جاتی ہے گوشت اور مرغی کی پیداوار کا بڑا حصہ بھی افغانستان سمگل ہورہاہے جس کے نتیجے میں پشاور کے لوگوں کو اپنے حصے کی قلیل سہولیات بھی نہیں مل رہی ہیں محکمہ بہبود آبادی کے مطابق اگلے سال تک پشاور کی آبادی مزید بڑھ سکتی ہے جس سے وسائل مزید کم پڑ جائیں گے توسیع کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے پانچ سالوں میں پشاور کی آبادی چھ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔پشاورکی صورتحال کا ایک اجمالی جائزہ لیاجائے تومعلوم ہوگاکہ یہاں بودو باش سے لیکر امن و امان اور تحفظ وسلامتی تک کے مسائل میںروزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اس میں شدت آتی جارہی ہے مگر اصلاح کی کوئی صورت نظرنہیں آتی ۔شہرائو کے عمل کی روک تھام تو نہیں ہو سکتی صوبائی دارالحکومت ہونے کے باعث پشاور بھی شہرائو کے عمل کا شکار ہے لیکن بعض محولہ وجوہات کی بناء پر اس کی شدت میںاس شرح سے اضافہ ہوا ہے کہ اچانک آبادی کے ایک بڑے حصے کی یہاں منتقلی کے باعث ساری منصوبہ بندی اورانتظامات کم پڑ گئے صوبائی دارالحکومت پر آبادی کی پہلی بڑی یلغار افغان جہاد کے موقع پر ہوئی جب پشاور مضافات کی طرف پھیل گیا بعد ازاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ساتھ ہی ساتھ زلزلہ اور سیلاب کے باعث بے گھر یامتاثر ہونے والے افراد کے بھی یہیں کا رخ کیا علاوہ ازیں صوبائی دارالحکومت ہونے کے باعث تعلیم صحت کی سہولیات اور شہرمیںرہائش اختیار کرنے کی طرف رجحان معمول کے شہرائو کے عمل کا حصہ تھاجو اب بھی جاری ہے اوراس کی روک تھام کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی اورنہ ہی اس میں کمی لائی جا سکتی ہے اسی کی وجہ سے شایدیہ ہو کہ صوبائی دارالحکومت اوراس کے اطراف پوری طرح بلڈرز اور پراپرٹی مافیا کی گرفت میں ہے جودھڑا دھڑ زمین خرید رہی ہے باغات ہوں یا سبزہ اور کھیت و کھلیان حکومت کی پالیسی زرعی زمین پر آبادی کی تعمیر کی اجازت نہیں مگر یہ صرف کاغذوں تک محدود ہے وگرنہ پشاور کے مضافات ہی نہیں پشاورتا چارسدہ اور نوشہرہ دوسری جانب درہ آدم خیل اور ایک جانب ضلع خیبرپشاور کی آبادی چاروں طرف اس قدرپھیل گئی ہے کہ اب پشاور میں سوائے کنکریٹ کی افقی عمارتوں کے قطاروں اور گھروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور صوبائی دارالحکومت کے کسی حصے میں کوئی قطع زمین اب بھی محفوظ نظر آئے تووہ بھی فروخت شدہ ہو گی جہاں کے لہلہاتے کھیتوں پربہت جلد ریت ‘ بجری ‘ سریا اوراینٹوںکے پہاڑ منتقل ہونے والے ہیں اس کے بعد وہ ساراعلاقہ جو کبھی پھولوں کا شہر کہلاتا تھااورجہاں باغات ہوا کرتے تھے کنکریٹ کے جنگل میں گم ہو چکاہوگا۔اس میں کوئی حرج نہیں کہ بنجر اور کھلے علاقوں میں تعمیرات ہوں لیکن جہاں تعمیرات بنا دیکھے اور حکومتی پالیسیاں اوراعلانات روند کر ہو رہے ہوں مسائل وہاں سے شروع ہوتے ہیں صوبائی دارالحکومت پشاور میں اس وقت تک منصوبہ بندی کے ساتھ بسائی گئی واحد ٹائون شپ حیات آباد ہی ٹھہرتی ہے ریگی للمہ تو متنازعہ اور ناکام منصوبہ قرارپاتا ہے علاوہ ازیں کی جوٹائون شپس یا آبادی و تعمیرات ہیں قیمتی زرعی اراضی اس کی زد میں ہیں مگر دیکھتے دیکھتے وہ پھیلتی جارہی ہیں اور شہر کے ایک حصے میں جو تھوڑی بہت زرعی زمین رہ گئی ہے اس کا بھی سودا ہوچکا ہے بغیر کسی منصوبہ بندی اور شہری سہولیات کی فراہمی کے جس طرح آبادی عمودی عمارتوں اور مکانات کی صورت میں بڑھتی جارہی ہے اس سے زیرزمین پانی کے ذخائر کاخاتمہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے کہ اس بنیادی انسانی ضرورت کی قلت و ناپیدگی کے باعث یہ ساری تعمیرات ویران اور متروک ہونے کے خطرات ہیں پشاور میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلی گئی ہے عمودی عمارتوںاور دیگرصنعتی و کاروباری ضروریات کے لئے پانی کا جس طرح استعمال ہو رہاہے اس پرقابو پایا نہ گیا توپشاور میں انسانی حیات خطرے سے دو چار ہو گی قدرتی مناظر اور جنگلی حیات کا پہلے ہی سرے سے خاتمہ ہو چکا ہے اور یہ شہر پوری طرح شہرناپرسان بن چکا ہے حکومت کے پاس آبادی کے درست اعداد و شمار ہی دستیاب نہیں تو وسائل کی تقسیم اور آبادی کی ضروریات پوری کرنے کاعمل ویسے بھی تعطل کا شکار ہے اور جب اندازے سے کہیں زیادہ آبادی باربار یہاںکارخ کرتی رہے گی اردگرد کی آبادی میں روزافزوں اضافہ ہوتا جائے تو ناقص منصوبہ بندی اور عدم ادراک کا پول کھلنا یقینی امر بن جائے گا۔ ایک سنگین صورتحال کی نشاندہی ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے جس طرح عدم ادراک اور لاتعلقی کاوتیرہ اختیار کرنے کا سلسلہ جاری ہے بعید نہیں کہ صوبائی دارالحکومت ناقابل رہائش شہر قرارپائے ۔آبادی کی تیزی سے منتقلی روکنے کے لئے صرف پشاور کی توسیع کافی نہیں اس کے لئے جگہ جگہ شہر بسانے اور انتظامات و سہولیات کی فراہمی پر توجہ کی ضرورت ہے قبل اس کے کہ پانی سرسے اونچا ہواور طبی ‘تعلیمی اور شہری سہولتوں کی فراہمی ناممکن ہوجائے خواب غفلت سے بیدار ہونے اور صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے