اب پچھتائے کیا ہووت

پنجاب کے معاملات کے حوالے سے مناسب یہی ہے کہ اب آئین کے مطابق معاملات کو آگے بڑھنے دیا جائے۔ پنجاب کا سابق حکمران اتحاد اور اپوزیشن اتحاد دونوں انتخابی عمل میں قسمت آزمائیں۔ اسمبلی تحلیل کئے جانے کے پس منظر سے جڑی بعض خبریں اور دعوے اب بیکار کی مہم جوئی ہے۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ باہمی رابطہ کاری میں پرویزالٰہی نے جو یقین دہانی کرائی تھی وہ محض سیاسی فریب تھا۔ درحقیقت چودھری پرویزالٰہی نے(ن)لیگ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا۔ معمولی سی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ اگر ممکن ہوتا تو پی ڈی ایم اور اتحادی ، وزیراعلیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس نہ لیتے۔ عدم اعتماد کی یہ تحریک اس یقین دہنای پر واپس لی گئی تھی کہ اعتماد کا ووٹ ملنے پر پرویزالٰہی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو نہیں بھجوائیں گے۔ (ن) لیگ کی قیادت رابطہ کاروں کے ذریعہ کرائی گئی یقین دہانی کے جھانسے میں آگئی۔ جبکہ خود(ن)لیگ کے بعض رہنما تحریک عدم اعتماد واپس لینے سے قبل وزیراعلیٰ کی تحریری یقین دہانی کے حصول کیلئے اپنی قیادت کو کہہ رہے تھے مگر ہوا کے گھوڑوں پر سوار لیگی قیادت کو بات اس وقت سمجھ میں آئی جب وزیراعلیٰ نے سمری گورنر کو بھجوادی۔ بظاہر عمران خان اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہے۔ پرویزالٰہی نے (ن) لیگ کے ساتھ جو ہاتھ کیا اس سے لیگی قیادت کو سمجھ تو آہی گیا ہوگا کہ مشاورت کے بغیر فیصلوں اور زبانی یقین دہانیوں کی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیلی کے لئے سمری گورنر کو بھجوانے کا کہہ دیا ہے۔ معاملات ددستور کے مطابق نمٹنانے کی شعوری کوشش سنجیدگی
سے ہوئی تو دونوں اسمبلیاں تحلیل ہوجانے پر متعلقہ صوبوں (خیبر پختونخوا اور پنجاب)صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابات ہوں گے۔ انتخابی عمل سے انحراف کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں اپنی مقبولیت اور حق نمائندگی کو آزمانا چاہیے۔ پی ڈی ایم اور اتحادی گزشتہ 9 ماہ سے عمران خان کی الزاماتی سیاست اور جارحانہ پن کا جواب نہیں دے سکے۔ غالباً یہ سوچا جاتا رہا کہ عمران خان کا ہدف ملامت اسٹیبلشمنٹ ہے جبکہ ضروری یہ تھا کہ آئی ایم ایف معاہدے اور بعض دیگر امور پر حقائق مسخ کرنے کا جواب دیا جاتا۔ ایسا کیا جانا بہت ضروری تھا۔ بہرطور جو ہوگیا وہ پلٹنے کا ہرگز نہیں۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا یہ فیصلہ اگر سیاسی میدان میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کا ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ غیر روایتی ہتھکنڈے اور دستوری تقاضوں سے انحراف خود حکمران اتحاد کیلئے مزید مسائل پیدا کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم اور اتحادی گزشتہ9ماہ کے دوران پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کا توڑ ہی نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وبا کی امداد میں ہوئی کرپشن کی ذمہ دار قیادت نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے چلائی گئی امدادی مہم کے خلاف محاذ قائم کیا یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط تک لکھا گیا
اور جنیوا میں امداد کے اعلان کو پروپیگنڈہ کے زور پر بھکاریوں کے لئے خیرات کی پھبتی ہر کس و ناکس کے منہ میں دے دی۔ گزشتہ برس تحریک عدم اعتماد لاتے وقت تجربوں اور مہارتوں کی جو رام لیلائیں فروخت کی گئیں وہ سب ہوا ہوئیں۔ اندریں حالات یہی بہتر ہے کہ اب دو صوبوں میں انتخابی عمل کا ڈول پڑنے دیا جائے کوئی منفی راستہ اختیار کیا جائے نہ اقدام کیا جائے۔ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں۔ قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کے حوالے سے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا فیصلہ ان کا جمہوری حق ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے ایک ہی دن رائے شماری آئینی تقاضا ہرگز نہیں یہ سلسلہ چند قباحتوں سے محفوظ رہنے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ جہاں تک پرویزالٰہی پر یقین دہانی سے ہٹ کر اقدام کرنے کے الزام کا تعلق ہے تو یہ ساری باتیں زبانی کلامی ہیں۔ سیاسی عمل میں در آئی نفرت اور خود چودھری خاندان میں پرویزالٰہی کی نئی حکمت عملی کے بعد در آنے والی سیاسی تقسیم کے بعد ان کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ خاندان میں مزید تقسیم کا دروازہ کھولتے۔ وزیراعلیٰ برقرار رہنے کے لئے انہوں نے (ن)لیگ سے جس طرح تحریری یقین دہانی چاہی تھی اسی طرح کی تحریر اگر(ن)لیگ بھی طلب کرتی تو سیاست کا نقشہ تبدیل ہوسکتا تھا۔ اب پچھتاوے کیا ہوت والی بات ہی ہے۔پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ اور اس سے قبل کے معاملات خصوصا عدالتی عمل ان کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر فرد کے اختیارات لا محدود نہیں تو دستور کے ماتحت کسی ادارے کے اختیارات لامحدود کیسے ہوسکتے ہیں۔ حالیہ عدالتی فیصلے پر اٹھتے سوالات اور بعض حوالوں سے تحفظات ہر دو کی موجودگی میں مناسب ہوگا کہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوادیا جاتا۔ مکرر اس امر کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹنے کا فائدہ کوئی نہیں جگ ہنسائی اور بچی کھچی سیاسی ساکھ پر دھول ڈلوانے سے بہتر ہے کہ سیدھے سبھائو آگے بڑھا جائے۔ دونوں صوبوں میں ایسی نگران حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں شامل افراد کی عمومی شہرت اور ساکھ پر حرف گیری نہ ہوسکے۔ آزدانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو بہرصورت یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ انتخابی عمل کے دوران یا نتائج کے بعد کوئی نیا تنازع جنم نہ لینے پائے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ پنجاب اسمبلی تحلیلی کئے جانے کی ایڈوائس کے بعد اگر خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھی گورنر کو بھجوادی جاتی ہے تو سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ سیاسی عدم استحکام کے دنوں میں ہوش اور تدبر سے کئے جانے والے فیصلے ہی حالات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ البتہ یہ امر دوچند ہے کہ جمہوریت کے سوا مسائل کا کوئی حل ہے نہ نظام اور ملکی سلامتی کی کوئی ضمانت۔ اس لئے سیاسی قائدین سے دردمندانہ درخواست ہے کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے جمہوریت کی راہ کھوٹی ہو ہم امید کرتے ہیں کہ سیاسی قائدین معروضی حالات، مسائل اور بالخصوص معاشی مسائل کو یقینی طور پر مدنظر رکھیں گے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی کے ساتھ جمہوری نظام کے لئے خطرات پیدا ہوں۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟