بے یقینی کاعالم ایساتونہ تھا

گزشتہ روز پاکستان کی صرافہ مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ پانچ ہزار روپے اضافہ ہوا جس سے سونے کی قیمت پاکستان میں ایک لا کھ چھیا سی ہزار ایک سو روپیہ ہوگئی ماض بعید کی بات ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کی شرح معمو لی مقدار میں ہوجا یا کرتی تھی لیکن افراط زر کی وجہ سے یہ بڑھ کر اب ہزاروں میں اضافہ ہو جاتا ہے ، سونے کا روبار کھلی مارکیٹ کے ذریعے ہی ہوتا یا ہے اور ایّام مر ور میں یہ کرنسی کے طور پر استعمال ہو نے کے علا وہ چونکہ بینک نہیں ہو ا کرتے تھے تو اس کی ذخیر ہ اندوزی دو طرح کی جاتی تھی ایک کرنسی کی صورت میں جیسا کہ ہندوستان میں اشرفی کی صورت میںیا پھر زیو رات کی صورت میں ، زیور کے طور پر سونا آج بھی خواتین میں مقبول ہے کیوںکی یہ زینت کا ایک بہترین ذریعہ ہے چنا نچہ زینت آرائی میں یہ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں یہ خواتین کی ضرورت بننے کے ساتھ شادی بیا ہ کا ایک اثا ثة بھی قرار پا گیا ، چنا نچہ ہندؤ معاشرہ میں تو یہ جہیزکے طور پر لا زمی حصہ بن گیا اور جس کی وجہ سے غریب گھر انوں کی بچیاں شادی سے محروم بھی رہ جا تی ہیں ۔ چوں کہ سونا ماضی میں کرنسی کا حصہ براہ راست رہا جس کی وجہ سے اس کی آج بھی اہمیت بر قرار ہے ،اور ملکی معیشت کا پیما نہ سونا ہی رہا ہے ، قیمتوں کے اتار چڑھاؤ میں دخیل رہا ہے پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پٹرول کی قیمتوں نے گرانی میں دخل حاصل کرلیا اور ہوتے ہو تے آٹا بھی ان کی صف میں شامل ہو گیا ، اب صورت حال یہ ہے کہ سونا گرانی سے کسی حد تک لا تعلق ہو گیا ہے چنانچہ ماضی قریب میں پٹرول اور آٹا دوایسی چیزیں رہ گئیں جو مہنگائی کا موجب بنتی رہی ہیں ، اب تو یہ صورت حال ہے بقول محسن احسان کہ
اب دعاؤں کے لیے اٹھتے نہیں ہیں ہا تھ بھی
بے یقینی کا تو عالم تھا مگر ایسا نہ تھا
جی بزرگ خواتین فرما یا کرتی ہیں کہ اشیا ء ضروریہ کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں شاید جلد ہی مستقبل قریب میں کوئی نیا محاورہ سامنے آجائے ،بہر حال پاکستان اس وقت جس حبس زدہ معاشی حالا ت سے گزر رہا ہے وہ اہل پاکستان کے لیے لمحہ فکر یہ ہے ، دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کیسی قوم ہے جس کو اپنے ملک کے استحکام سے کوئی علا قہ نہیں صرف حرص زرو حرص اقتدار میں مبتلاء ہیں ،ملک کے ہر قسم کے استحکام کی تما م تر ذمہ داری سیا ست دانو ں پر ہی عائد ہو تی ہے ،یہ عذر قابل قبول نہیں ہوتا کہ ان پر کسی زبردست قوت کا دباؤ ہو تا ہے ، چنا ں چہ دباؤ قبول کر نے والا پھر قوم وملک کی قیا دت کا مستحق قرار نہیں پا تا ، ایسے میں لا زمی ہے کہ ملکی مفادات میں سینہ تان کر رکھنا ضروری ہے جھک جا نے کا نا م ہی غلا می ہے ،اس موقع پر 11دسمبر 1950میں انگریزی اخبا ر پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والا ایک کا رٹون یا د آرہا ہے کہ جب امر یکا نے پاکستان کو چھ لا کھ ڈالر مداد دی تو کارٹون شائع ہوا جس میں کھڑکی سے سر نکال کر دوامریکی آپس میں بات کررہے ہیں جس میں ایک امریکی دوسرے کہہ رہا ہے کہ پاکستان نے امریکی امداد لے لی ہے یہ اب کبھی اپنے پیر وں پر نہیں کھڑا نہیں ہو سکے گا اسی موقع پر نہرو نے کہا تھا جو امریکی مونگ پھلی لیاقت علی خان نے کھا لی ہے وہ پاکستان کو بہت مہنگی پڑے گی۔سڑسٹھ سال قبل جو بات کارٹون کے ذریعے کہی گئی تھی آج کتنی صحیح ثابت ہو رہی ہے ،چنا نچہ محسن احسان ہی بقول کہ
لباس تن پہ سلامت ہیں ہاتھ خالی ہیں
ہم ایک ملک خداداد کے سوالی ہیں
اب تو امریکی کا غذ کا ٹکڑ بین الا قوامی کر نسی کا روپ اختیا ر کر گیا ہے جو کہا جاتا تھا کی جس کا سکہ چلتا ہے اسی کا راج ہوتا ہے اس کہاوت کی بنیا د پر دنیا میں ڈالر کا سکہ چل رہا ہے چنا نچہ راج بھی امریکی چھایا ہو ا ہے جب پاکستان کا وجو د آیا اس وقت ڈالر کا راج صرف تین ساڑھے تین روپے تھا ، پاکستان کی تجارت ڈالر کی بجائے برطانوی پو نڈ میںہوا کرتی تھی سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مر حوم نے پاکستان کی دولت مشتر کہ علحیدگی کا اعلا ن کیا اور ساتھ ہی یہ اعلا ن بھی کردیا کہ پاکستان اب پو نڈ کی بجائے ڈالر میں لین دین کر ے گا تب سے امریکی ڈالر کے پاکستان میں پر لگ گئے ، اس کی اڑان کی ا ب کو حد نہیں رہی ہے ، قیا م پاکستان کے وقت ساڑھے تین روپے میں بکاؤ ڈالر گزشتہ روز تقریباً228روپے کی اڑان پر نظر آیا ، یہ اڑان اسٹیٹ بینک کی مقرر کر دہ قیمت پر متعین تھی مگر کھلی مارکیٹ میں خاص طور پر پشاور کی صرافہ ما رکیٹ میں دوسو پچا س روپے کی اڑان پرہو ا خوری کر رہا تھا ، ادھر صورت حال یہ ہے کہ سمند ر پارپاکستان کی جانب سے نومبر 2022میں اکیس ارب ڈالر کی ترسیلا ت ہوئی تھیں ، جس میں دسمبر میں32فی صد کی کمی واقع ہوئی اور مسلسل ترسیلا ت میں تنزلی دیکھی جا رہی ہے سمند ر پا ر پاکستانی سرکا ری روٹ کی بجائے دیگر ذرائع سے ترسیلا ت کر رہے ہیں جس کی غالباًًوجہ ہے کہ سرکا ری ریٹ میں اور کھلی مارکیٹ میں دالر کی قدر میں بہت بڑا تفاوت پایا جا تا ہے ، سمندر پاکستانیو ںکی جانب سے رقوم کی ترسیلا ت کم ہو جا نے پربھی اس ملک کے بعض لیڈر بغلیں بجا رہے ہیں اور اس کو حکومت کی نا کا می قرار دے رہے ہیں ، ان سب حالات کے باوجو د دنیا کے ممتاز مزاحیہ اداکار چارلی چپلن نے 88سال زندگی پائی اور اس نے دنیا کے لیے چار بہترین بیانات چھوڑے۔
(١) اس جہاں میں کچھ بھی ہمیشہ کیلئے نہیں، نہ ہی ہما رے مسائل ہمیشہ کے لیے ہیں (٢) میں بارش میں چہل قدمی کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ کوئی بھی میری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ پاتا۔(٣) ھماری زندگی کا سب سے محروم دن وہ ہوتا ہے جس دن ہم ہنس نہ سکیں۔ (٤) چھ چیزیں بہترین ڈاکٹر ہیں ، سورج ،سکون، ورزش، ہلکی خوراک، عزت نفس اور دوستعمر بھر ان سے جڑے رہیے اور صحت مند زندگی پائیے۔
چاند دیکھنے پر آپ خدا کی خوبصورتی پاتے ہیں۔ سورج دیکھنے پر آپ خدا کی طاقت کا اندازہ کرتے ہیں۔آئینہ دیکھنے پر آپ خدا کی خوبصورت ترین مخلوق دیکھتے ہیں، سو خود پر یقین رکھیے۔ھم سب اس دنیا میں سیاح ہیں اور خدا ایک ٹریول ایجنٹ۔ جس نے پہلے سے ھمارے روٹس، بکنگ اور ھماری منازل مقرر کی ہوتی ہیں۔ اس پر یقین رکھیے اور زندگی سے لطف اٹھائیے۔زندگی ایک سفر ہے،اپنے”آج”کو خوبصورت بنائیے،”کل”شائد نہ آ۔چناں چہ کل لا نے کے ذمہ داروں کا احساس کرناچاہیے کہ وہ کس کا مستقبل کھو رہے ہیں

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''