سستے آٹے کی سستی سیاست

ایک ایسے وقت میں جب پختونخوا اسمبلی کی ممکنہ تحلیل کے باعث خیبرپختونخوا حکومت کے آخری چند دن ہی رہ گئے ہیں صوبے میں سستا آٹا ایم پی ایز اور ایم این ایز کی پرچی سے مشروط کرنے کاعمل عوام کو خواہ مخواہ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کے پیچھے لگانے کے مترادف ہے سرکاری وسائل کے استعمال سے اس طرح کا عمل نہ حکومتی اور نہ ہی اخلاقی و عوامی طور پر مستحسن ہے بلکہ یہ ایک ایسا کام ہے جس میں اپنوں کو نوازتے نوازتے جنتا کو اپنا مخالف بنانے کا ہے جس پر مخالفین کی تنقید بھی موثر اور کارگر ہو گی اور حکومت کے لئے یہ فیصلہ بلائے جان بن سکتا ہے بہرحال عاقبت نااندیشوں نے اس سلسلے میں سٹیمپ بنا دئیے ہیں اور فوکل پرسنز بھی مقرر کر دئیے گئے ہیں۔ متعلقہ علاقوں کے شہری آٹا خریدنے سے قبل پرچی لیں گے بصورت دیگر انہیں10کلو سرکاری آٹے کا تھیلا فروخت نہیں کیا جائے گا۔اس عمل کی کسی طرح کی بھی توجیہہ ممکن نہیں چونکہ صوبے میں تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کی تعداد سب سے زیادہ ہے ایسے میں جن حلقوں میں تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی ہیں ان حلقوں میں دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہوں یاوہ لوگ جس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہو ان کا سستے آٹے سے محروم رہ جانے کاخدشہ ہے وہ دھکے کھا کر پرچی لینے میں کامیاب بھی ہو جائیں اور پرچیوں کی سیاسی بنیادوں پرتقسیم نہ بھی ہوئی تو یہ مناسب نہیں رعایتی آٹا کسی سیاسی جماعت کااستحقاق نہیں حکومت کسی جانب سے عوام کو ایک ریلیف ہے جس کی سیاسی بنیادوں پرفراہمی کی بجائے غیرسیاسی بنیادوں پرعام فراہمی کاطریقہ کار اختیارکیا جانا چاہئے یہ عوام کا حق ہے کسی کی مہربانی نہیں۔یہ درست ہے کہ رعایتی آٹے کی تقسیم میں شدید بدنظمی اورناانصافی کی شکایات عام ہیں اور عام آدمی کے لئے آٹا کاحصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے مگر اس کا یہ طریقہ نہیں کہ اسے سیاسی کارکنوں کی گود میں دیا جائے جواس کاجائز و ناجائز استعمال کریں رعایتی آٹے کی تقسیم کا عمل اصلاحات کا متقاضی ہے مگر اس کے لئے اختیار کردہ یہ طریقہ درست نہیں اس کی بجائے اگرعلاقہ مساجد کے علماء اورعمائدین علاقہ کی کمیٹی بنا کر ان کی وساطت اور ان کی پرچی پر آٹا تقسیم کیا جائے تو یہ کم باعث نزاع اور موزوں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ