دہشت گردوں کا ایک اور وار

کچھ ہی دن کے توقف کے بعد دہشت گردوں نے صوبے میں ایک مرتبہ پھر مختلف مقامات پر کارروائی کی ہے دہشت گردی کا تازہ بڑا واقعہ تھا نہ سربند پررات گئے حملہ ہے جس کے دوران دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ایک ڈی ایس پی سمیت ان کے دو محافظ جوانوں کی شہادت کا بڑا واقعہ پیش آیا۔ پشاور کے نواحی علاقہ باڑہ روڈ پر تھانے کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ماضی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کایہ علاقہ سب سے زیادہ شکار اورمتاثرہ رہا ہے مضافاتی علاقہ ہونے کے باعث دہشت گردوں کا یہ آسان ہدف رہاہے جس کا تقاضا ہے کہ اس علاقے سمیت دیگر تمام مضافاتی علاقوں میں سکیورٹی کے اقدامات میں اضافہ کیا جائے اور خصوصی حفاظتی اقدامات کا ایک مضبوط حصار قائم کیا جائے اور یہ اتنا موثر ہونا چاہئے کہ دہشت گرد اسے توڑ کر کسی عمارت پرحملہ آور نہ ہو سکیں۔ان حالات میں حفظ ماتقدم کا تقاضا ہے کہ عوام کے تحفظ اور دہشت گردوں کی نقل وحرکت مسدود کرنے کے لئے رات کا اگرکرفیولگانے کاجائزہ لیاجائے تو موزوں ہوگا گزشتہ دور دہشت گردی اوردہشت گردی کی تازہ لہر میں ایک نمایاں فرق یہ آیا ہے کہ پہلے دہشت گرد خود کش حملے اور بارود سے بھری گاڑی تھانوں کی عمارت سے ٹکراتے تھے اورمضافاتی چوکیوں پر اچانک حملہ کرتے تھے مگراس مرتبہ پشاور میں تھانہ ریگی پر حملہ آور ہوئے جبکہ اب تھانہ سربند پر حملہ کیا مشکل امریہ ہے کہ دہشت گردوں کے پاس جدید ترین امریکی اسلحہ آگیا ہے جوانہو ں نے افغانستان سے حاصل کیا اس کے مقابلے میں خصوصاً رات کے وقت پولیس کے پاس دہشت گردوں کامقابلہ کرنے کے لئے ضروری آلات اور جدید اسلحہ موجود نہیں گزشتہ رات کے حملے میں بھی دہشت گردوں نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر پولیس کو باآسانی نشانہ بنایا جس کاتقاضا ہے کہ پولیس کے پاس جب تک برابر کا اسلحہ نہیں آتا پولیس کو باہر نکل کردہشت گردوں کو للکارنے میں احتیاط کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی حساس مقامات کے تھانوں اور مضافات کوحصار درحصار سکیورٹی کے انتظامات کرکے محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ مضافات کے تھانوں کو خاص کربکتر بند گاڑی کی ترجیحی فراہمی ہونی چاہئے تاکہ دہشت گرد پولیس کوباآسانی نشانہ نہ بنا سکیں نیز پولیس اس پوزیشن میں ہو کہ وہ بھی دہشت گردوں کوللکار سکے اوران کا تعاقب کیاجا سکے ان پے درپے واقعات کے طور پر پولیس کوجدید ترین اسلحہ اور خصوصی آلات کی فراہمی اور ان کے ماہرانہ استعمال کے لئے تربیت کی بھی ضرورت ہے ۔ یہ تجویز دیتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ خود پولیس کی بھی حفاظت کا انتظام ہونا چاہئے لیکن بہرحال پولیس کی حتی المقدور حفاظت کا بندوبست اور حفاظتی اقدامات کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے جس کاتقاضا ہے کہ تمام حساس مقامات کی دن رات نگرانی اور خصوصاً رات کے وقت مضبوط دفاعی پوزیشنوں پر مشاق نشانہ بازوں اور بھاری اسلحہ سے لیس عملے کی تعیناتی کی جائے پولیس کوفوری طورپر فرنٹیئر کانسٹیبلری کی کمک کی بھی ضرورت ہے عملے کے ارکان کو محفوظ بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کا تقاضا ہے کہ ان کی آمدورفت پولیس وردی کی بجائے عام کپڑوں اور مختلف راستوں سے اور مختلف اوقات میں کرنے کا طریقہ اپنانا احتیاط کا تقاضا ہے پولیس شہداء کے جنازوں کوکندھا دینے اور ان کی نماز جنازہ میں شرکت میں حکمرانوں کی جانب سے تساہل کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے پولیس افسران اوراہلکارہمارے محافظ ہیں ان کی قربانیوںکی پوری قوم معترف ہے حالات کے پیش نظر مضافات میں تطہیری آپریشن میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے شہری علاقوں میں بھی کرایہ نامہ کی جانچ پڑتال اور بوقت ضرورت تلاشی کے عمل سے گریز نہ کیا جائے دہشت گردوں کو معاشرے سے کسی قسم کی سہواً بھی مدد نہیں ملنی چاہئے جس کا تقاضا ہے کہ شہری اپنے اگرد گرد کے علاقوں اور خاص طور پرمشتبہ افراد کی ممکنہ آمدورفت پر نظررکھیں اور جس ذریعے سے بھی حکام تک اطلاع پہنچا سکیں اپنا قومی اور بطور شہری فریضہ سمجھتے ہوئے ایسا کرنے میں تساہل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا جائے پولیس اورحساس اداروں کی جانب سے عوامی سطح پراعتماد اورتعاون کے حصول پرخصوصی توجہ دینے اور اقدامات کی ضرورت ہے قومی اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ہی اس نئی لہر کا استقامت اور حوصلے سے مقابلہ ممکن ہے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس