پاکستان کا ایٹمی پروگرام اصل نشانہ

چند دن قبل اچانک یہ خبر دنیا کی توجہ حاصل کرنے کا باعث بنی کہ برطانیہ کے ہیتھرو ائرپورٹ پر ایک ایسا پارسل ضبط ہوا ہے جس میں یورینیم موجود تھی اور مبینہ طور پر یہ پیکٹ پاکستان سے بھیجا گیا ہے ۔بعد میں یہ کہانی بھی سامنے آئی کہ یہ پیکٹ ایران کے کچھ لوگوں تک پہنچایا جانا تھا ۔یہ پرانی کہانی کا نیا ابتدائیہ ہے ۔یوں لگتا ہے کہ کھیل ایک نئے انداز سے شروع ہورہا ہے ۔اس طرح کی خبروں کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھر دنیا کا موضوع بنے گا ۔ایک طرف پاکستان اقتصادی بدحالی کی گہرائیوں میں پڑ چکا ہے تو دوسری طرف اس کے ایٹم بم کو موضوع بحث بنانے کا کھیل شروع ہوا چاہتا ہے ۔ مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ یہ باریوں کی منتظر اور سزاوار ہے ۔ایک کے بعد کھیل ختم ہونے کی بجائے دوسرے کی باری لگ جاتی ہے ۔نائن الیون کے بعد افغانستان کا سول سٹرکچر ادھڑ گیا تو کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ اب یہ سلسلہ خلیج تک دراز ہو جائے گا ۔امریکہ ایک لمحے کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے غافل نہیں رہا یوں لگتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھر امریکہ کی نگاہ ِالتفات کا مرکز بننے لگا ہے اس کا ثبوت امریکہ کے معروف اخبار کا اداریہ ہے۔ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز” نے 2015میں اپنے ایک اداریے میں عالمی طاقتوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی توجہ ایران سے ہٹا کرایشیا کی جانب کرے جہاں دوبڑی جوہری طاقتیں موجود ہیں۔اخبار نے لکھا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات پر حتمی معاہدے کے بعد امریکہ اوردیگرعالمی قوتوں کو اپنی توجہ کا مرکز جنوبی ایشیاکو بنانا چاہئے ۔جنوبی ایشیا کی بگڑی ہوئی صورت حال کو عالمی طاقتیںنظر انداز نہیں کر سکتیں کیونکہ ایران کے ساتھ ساتھ پاکستان ،چین اور بھارت بحیرہ ہند پر جوہری ہتھیار نصب کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔صرف پاکستان ہی جنوبی ایشیا میں خطرہ نہیں بلکہ چین کا اپنی جوہری صلاحیت کو بڑھانا بھی خطے کے لئے تشویشناک ہے ۔اخبار کے مطابق پاکستان اپنے بجٹ کابڑا حصہ فوج کو جدیدہتھیاروںاور میزائل سے لیس کرنے پر صرف کر رہا ہے جو جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستان کے پاس بھارت جیسے جدید ترین جنگی ہتھیار نہیں اس لئے اس کا زیادہ تر بھروسہ جوہری ہتھیاروں پر ہے۔اس لئے پاکستان جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کر سکتا ہے ۔امریکہ کے ایک بڑے اخبار کا اداریہ مغرب میں پلنے والے ذہن کا عکاس یا مغرب میں پاکستان کے ایٹم بم کے حوالے سے عوامی اور دانشورانہ سطح پر ذہن سازی کا سلسلہ شروع ہونے جا رہا تھا۔نیویارک ٹائمز جیسے اخبارات کے کالم اور اداریے محض کسی صحافی کی خیال آرائی نہیں ہوتا بلکہ ان کے پیچھے گہرے مقاصد کارفرما ہوتے ہیں ۔اکثر اوقات امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے اپنے پوشیدہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے اس انداز کے تجزیے اور تحقیقاتی روپورٹس شائع کرتے ہیں۔پاکستان اور اس کا ایٹمی پروگرام روز اول سے امریکی نگاہِ التفات کا
مرکز ہے۔ یہ دنیا کا واحد ایٹم بم ہے ،امریکہ کے نزدیک جس کا باقاعدہ مذہب بھی ہے ۔امریکی اسلحہ خانوں میں پڑا ایٹم عیسائی بم ہے نہ بھارت کا بم ہندو بم ،چین کا بم بودھ بم ہے نہ اسرائیل کا ایٹم بم یہودی بم ہے صرف پاکستان کا بم مغربی میڈیا کی نظروں میں ہمیشہ اسلامی بم کہلایا۔دنیا کے دوسرے ایٹم بم اپنی اپنی قومی ریاستوں کی ملکیت تھے مگر پاکستان کا بم امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ قرار پایا حالانکہ نہ تو کبھی پاکستان نے اس بم کو مسلم امہ کا اثاثہ کیا نہ کوئی مسلمان ملک پاکستان کے بم پر اتراتا اور فخرکا اظہار کرتا رہا۔اگر پاکستان کا بم مسلم امہ کا اثاثہ ہوتا تو غزہ پر اسرائیل بارہا قیامت برپا کرتا رہا مگر پاکستان کا بم فقط پاکستان کا بم رہا ۔برما میں مسلمانوں پر قیامت گزرگئی مگر پاکستان کا بم پاکستان کا ہی اثاثہ رہا ۔مستقبل کی کسی جنگ میں اس بم کے پاکستان سے باہر استعمال ہونے کے آثار نہیں۔اس کے باوجود مغرب نے دنیا کو پاکستان کے بم کو امت مسلمہ کا اثاثہ بنا کر دنیا کو خوفزدہ کئے رکھا۔حقیقت یہ تھی کہ مغرب کو کسی مسلمان ملک کا ایٹمی ہونا کبھی گوارہ ہی نہیں رہا ۔اس کی وجہ مغرب کا مغالطہ ہے اور صلیبی جنگوں سے باہر نہ آنے کی روش ہے ۔مغرب کا مغالطہ یہ ہے کہ مسلمان فطرتاََ جنگ جو ہیں ۔ایٹم بم جیسے ہتھیار کا ان کے ہاتھ آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کو آن ِواحد میں ملیامیٹ کر سکتے ہیں۔اس بنا پر وہ مسلمانوں کو ایٹمی طاقت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔ان کے خیال میں مسلمانوں کی ذہنی سطح اس قدر پست ہے کہ وہ ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار کی ملکیت کے اہل ہی
نہیں ۔ان کا مسئلہ روٹی ہے سو انہیں کسی نہ کسی صورت ملنی چاہئے۔اسی ذہن کے زیر اثر مغرب نے1981میں اسرائیل کے ذریعے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کروا کر اسے تباہ کرایا۔پاکستان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ سردجنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا ۔امریکہ اور پاکستان جس عرصے میںافغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مشترکہ طور پر برسرپیکار تھے پاکستان نے اسی عرصے میں نظریں بچا کر اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کیا۔اس کے بعد مغرب نے پاکستان کے ایٹم بم کو ہتھیانے ،ری کیپ کرنے اور فریز کرنے کے نام پر پاکستان پر مختلف انداز میں کمندڈالی جاتی رہی مگر پاکستان نے اس کی مزاحمت کا فیصلہ کیا ۔اس دوران لیبیا کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرکے سارا مواد کنٹینروں میں بھر کر منتقل کیا گیا۔لیبیا کے ساتھ ساتھ ایران کا ایٹمی پروگرام امریکہ کا ہدف رہا ۔اب یہ معاملہ حل کے قریب پہنچ گیا تو مغرب کا فتنہ جو ذہن دوبار پاکستان کے ایٹم بم کی جانب متوجہ ہوگیا ہے۔نیویارک ٹائمز کے اداریے سے یہ مترشح ہے کہ اب مغرب کے سارے پروپیگنڈے کا رخ پاکستان کی جانب ہونے جا رہا ہے ۔امریکہ کو مسلمان دنیا میں ایک ایسے سینڈ بیگ کی ضرورت رہی جس سے مکے بازی کرکے وہ اپنا لہو گرم رکھ سکے ۔اس کے لئے کبھی آیت اﷲ خمینی کے ایران کو ہدف بنایا جاتا ہے تو کبھی صدام حسین کے عراق کو،کبھی قذافی کا لیبیا تو کبھی ایٹمی پاکستان سے ریت کی بوری کا کام لیا جاتا ہے ۔پاکستان کو اپنی تما م صلاحیتیں مجتمع کرکے دنیا کو یہ باور کرانے پر صرف کرنا چاہیے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے ۔جس کا ایٹم بم خطے میں امن کی ضمانت ہے ناکہ کسی تباہی کا سامان ۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت