دن میں اگرچراغ جلائے توکیاکیا

ایک اور یوٹرن ہوتے ہوتے رہ گیا کہ جس طرح گزشتہ روز خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کوالتواء میں ڈالنے کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں اس پرتو یوٹرن ہی کی پھبتی کسی جا سکتی تھی مگر بقول شاعر جس کو سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی ‘ یعنی ایک بار پھریوٹرن کی نوبت آتے آتے ڈگمگا کرسنبھل گئی اوراس کے بعد ایک بارپھراعلان ہوا کہ پختونخوا اسمبلی منگل (آج جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی) کو تحلیل کردی جائے گی ‘ تو ممکن ہے ایسا ہی ہو اور کسی ممکنہ یوٹرن کی نوبت نہ آئے ‘ اونٹ کے البتہ پہاڑکے نیچے آنے کی صورتحال ضرور ملکی سیاست میں پیدا ہوچکی ہے ‘اب یہ اونٹ کون ہے؟ اس کافیصلہ توآنے والے دنوں میں ہوجائیگا تاہم بعض دعوے بڑے اہم ہیں ‘ ان میں ایک دعویٰ تو یہ ہے کہ ”میں شہباز شریف کواتنا زچ کروں گا کہ اسے نیند کی گولیاں لینی پڑیں گی”۔ یہ گویا اسی قسم کا دعویٰ ہے کہ ”میں انہیں رلائوں گا” مگر بعض اداروں کی آشیرباد سے اپنے مخالفین کو قید وبند اورظلم وجور کا نشانہ بنانے کے باوجود الٹا رونے کی صدائیں خود موصوف کی جانب سے سنائی دیتی رہی ہیں ‘ اب جبکہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد بھی ہوش نہیں آ رہا اوربقول شاعر
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے توکیاکیا
دن میں اگرچراغ جلائے تو کیا کیا
دعویٰ یہ ارزاں کیا جارہا ہے کہ اب شہباز شریف کو بھی اعتماد کاووٹ لینے کے امتحان سے گزرنا پڑے گا’ اور ہم نے جو اونٹ پہاڑ کے نیچے آنے کی بات کی ہے تو ہمارا اشارہ اسی جانب ہے ‘ سودیکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کون ہے’ وزیر اعظم شہباز شریف یا پھر خودعمران خان؟ بظاہر تو لگ یہی رہا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے کیونکہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پرایم کیوایم نے ایک بار پھرمتحد ہو کر جس طرح حکومت سے الگ ہونے کی تڑیاں لگانی شروع کردی تھیں ‘ اسے تحریک کے سربراہ نے ”بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا” سمجھ کرایوان صدرمیں براجمان بقول شخصے”انصافی صدر” کے ذریعے وزیراعظم شہباز شریف کواعتماد کا ووٹ لینے کے ”خطرے” سے دوچار کرنے کی سوچ اپناتے ہوئے اس حوالے سے تحریک کے دیگر رہنمائوں کوبھی فعال کرتے ہوئے بیانات داغنے شروع کردیئے تھے ‘یوں اصولاً اگر ہم نے اسے محاورةً”اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے” کہا تواس پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے’ لیکن حالات جوکچھ بتا رہے ہیں اور ایم کیو ایم نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے باوجود بھی وفاقی حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے کے تاثرکوغلط قراردیا ہے تو اصولی طورپر وزیراعظم سے اعتماد کاووٹ لینے کا بیانیہ دھڑام سے نیچے گرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ‘ پھر بھی یہ سیاست ہے اور بقول ابوالکلام آزاد سیاست کے پہلومیں دل نہیں ہوتا ‘ بلکہ ایک پاکستانی دانشور سیاست کی آنکھ میں شرم بھی نہیں ہوتی ‘ توکیا پتہ کب یہ شرم کی آنکھ پھڑکے اور اشارہ دل تک جا پہنچے ‘ یعنی ایم کیو ایم اچانک بدکے ہوئے گھوڑے کی مانند دو لتیاں جھاڑنا شروع کردے ‘ مگر فرق اس سے تو پڑتانہیں کہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم اگر حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو بھی جائے ‘ تب بھی شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی دشواری نہیں ہو سکتی ‘ اس لئے کہ اعتماد کے ووٹ کے لئے حکومت کو جتنے ووٹوں کی ضرورت ہے ان سے زیادہ شہبازشریف کے پاس موجود ہیں کہ گنتی موجودہ کل تعداد کے مطابق ہو گی ‘ خواہ ایم کیو ایم والے دست تعاون کھینچ بھی لیں تب بھی ‘ ایسی صورت میں پہاڑ کے نیچے آنے والے اونٹ کو وزیر اعظم سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی بلکہ صورتحال بدل جاتی ہے اور جووزیراعظم کو محاورے کا اونٹ بنانا چاہتا ہے خود اس کی جگہ کھڑا دکھائی دے گا۔ اگرچہ ہمارے ہاں سیاست کا سارا کھیل ہمیشہ سے ”لوٹاگری” کا شکار رہا ہے اور جو لوگ وزیر اعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کے سارے بیانئے کواسی مبینہ ”لوٹا گردی” کے شیشے میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سوچ رکھتے ہیں ان کو مرحوم دلاور فگار کے اس فرمان کو بھی ذہن میں ضروررکھنا چاہئے کہ
ملی تھی راہ میں جمہوریت کل
جو میں نے خیریت پوچھی تورودی
وہ بولی میں بھی باعزت تھی پہلے
مگرلوٹوں نے لئیا ہی ڈبو دی
سو دیکھتے ہیں کہانی کدھر کو جاتی ہے کیونکہ وہ ازل کے اڑیل گھوڑوں کی طرح تڑیاں دینے والے بھی اپنا بیانیہ بدل چکے ہیں ‘ اور اگر ایوان صدرسے وزیراعظم کو اعتماد کاووٹ لینے کا کہا جائے گا تو ماضی کے برعکس”اڑیل گھوڑوں” کوکہیں سے فون کال آنے کی صورتحال میں اب بہت تبدیلی آچکی ہے ۔ اس لئے ”اونٹ”ایوان اقتدار کی راہداریوں میں نہیں ہے جس کو ”مارگلہ” کی پہاڑیوں کے نیچے آجانے کا اندیشہ ہو’ بلکہ وہ ا ونٹ کسی اور مقام پر منتقل ہو چکا ہے اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اب سسکیاں اور ہچکیاں کسی اور مقام سے بلند ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ‘ اور نیا بیانیہ یہ بنایا جارہا ہے کہ ”ہمارا مینڈیٹ کم کرنے کی کوشش ہوئی تومزاحمت کریں گے ” ۔ اس بیان کے اندرلفظ”مینڈیٹ”پر غور کرنے کی ضرورت یوں ہے کہ اس لفظ کی اہمیت اور افادیت ہے ہی کتنی؟ کیونکہ اگر آرٹی ایس بٹھا کر( اداروں کے افراد کے ذریعے مبینہ طور پرٹھپے لگانے کے عمل سے) چوری کے ذریعے حاصل مینڈیٹ کوحقیقی مینڈیٹ قراردیا جا رہا ہے تو پھر”مزاحمت” توبنتی ہے ‘ مگر نقلی کو اصلی اور خالص مینڈیٹ سمجھنے والوں کے لئے ”شرم تم کو مگر نہیں آتی” کے الفاظ بھی شاید شرمندہ نہ کرسکیں اس لئے سمجھنے دیں کہ چکنے گھڑے پر پھسلنا ان کا مقدر ہی ہے۔
روز ہوتا ہے تعارف کسی سچائی سے
روزاک شخص مرے دل سے اتر جاتا ہے

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں