مشرقیات

میدان حشر میں جو میزان عدل ہو گی اس کے پلڑے سونے کے ہوں گے یا چاندی کے؟ اندلس کے ایک امیر الامراء نے یہ بات پوچھی تھی لوگ بیٹھے تھے ۔ شاگرد ‘ معتقدین مسائل پوچھنے والے ۔ا تنے میں وہ خط جسمیں یہ سوال پوچھا گیا تھا صدر محفل کوپیش کیاگیا صدر محفل تھے حضرت زیاد بن عبدالرحمن انہوں نے اسے کھول کرپڑھا اس کا جواب لکھا اورلفافے میں بند کرکے روانہ کردیا۔
حضرت زیاد بن عبدالرحمن اندلس کے رہنے والے تھے قرطبہ میں قیام تھا ۔ امام مالک سے انہوں نے حدیث کا درس لیا تھا اندلس میں ان کے مکتب فقہ کو رواج دینے والے وہی تھے وہ دو مرتبہ اندلس سے سفر کرکے مدینہ گئے اور امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زیاد بہت بڑے پڑھے لکھے ‘ بہت ذہین بھی اور بڑے مضبوط کردار کے آدمی بھی تھے حضرت سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے ۔۔ جسے علم کا شوق ہو اس کو چاہئے کہ لوگوں سے کم سے کم ملے اس میں ایک طرف تو وقت کی بچت ہوتی ہے دوسرے آدمی غیبت سننے اور غیبت کرنے سے بچ جاتا ہے۔میل جول بڑھتا ہے تو دنیا داری کا رجحان بھی بڑھتا جاتا ہے آدمی حرص و ہوس کا بندہ تو ہوتا ہی ہے ذرا سی ہوس بڑھ جائے تو دنیا کا یہ دیوانہ اور دیوانہ ہوجاتا ہے۔
زیاد بن عبدالرحمن عالم دین تھے اللہ والے تھے علم جتنا اونچا تھا اتنا ہی عمل بھی اچھا تھا۔ حاکموںاور دنیا داروں کے پاس بھولے بھٹکے بھی نہ جاتے۔ عالم بڑا محتاط بڑا خوددار ہوتا ہے اپنے کو بھی اچھی طرح پہچانتا ہے اور خدا کو بھی خوب جانتا ہے زرو جواہر کے بازار مین وہ داموں نہیں بکتا۔
زیاد بن عبدالرحمن ان عالموں میںسے تھے جن کے کردار کی شہرت دور دور پھیل جاتی ہے قرآن ‘ تفسیر’حدیث ‘ کلام ‘ ادب ‘ فقہ ہر ایک پر ان کی نظر تھی اور گہری نظر فقہ سے انہیں خاص دلچسپی تھی لوگ مشکل سے مشکل مسائل ان کے پاس لے آتے اور وہ لمحوں میںانہیں سلجھا دیتے عشق اور مشک کی طرح علم بھی کبھی نہیں چھپتا قرطبہ کے امیر ہشام کو معلوم ہوا کہ زیاد بہت بڑے فقیہہ ہیں تو اس نے انہیں قرطبہ کا قاضی مقرر کیا۔
حضرت سفیان ثوری کوخلیفہ نے بلوا کر بغداد کا قاضی مقرر کیا تو انہوں نے دربار سے نکلتے ہی سیدھے دریائے دجلہ کا رخ کیا تقرر کا پروانہ چاک کرکے دریا میں ڈالا اور خود بغداد چھوڑ کر نکل گئے کہ قاضی بن کرکسی اور کے اشارے پر کام کرنا انہیں منظور نہ تھا۔
زیاد نے بھی یہی کیا قرطبہ چھوڑا ایک طرف نکل گئے کیونکہ کسی مطلق العنان بادشاہ کا قاضی بننا نہیں منظور نہ تھا۔ درباری جاسوس ہمیشہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں کسی نے جا کے ہشام کو بتایا کہ زیاد قرطبہ چھوڑ کے چلے گئے اسے بڑا افسوس ہوابولا۔۔۔ کاش جولوگ عالم کہلاتے ہیں زیا د جیسے ہوتے پھر جلدی جلدی ایک خط لکھا ہر کارے کودیا کہ جائو ڈھونڈو اور انہیں یہ خطے دے آئو۔ خط میں اس نے لکھا۔۔میں سمجھ گیا کہ آپ کس مزاج کے آدمی ہیں خدارا شہر چھوڑ کر نہ جائیے میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کوکسی عہدے کی پیشکش نہ کروں گا۔۔۔بستان المحدثین میں ہے یہ خط پڑھ کر زیاد لوٹ آئے ۔ ۔۔۔۔وہ جو ایک پڑھ کر زیاد بن عبدالرحمن نے اس کا جواب لفافے میں بند کر دیا تھا اس کے بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو فرمایا ۔۔۔ مجھ سے پوچھا یہ گیا تھا کہ میزان عدل کے پلڑے کس چیز کے ہوں گے چاندی کے یا سونے ؟ حاضرین نے بڑی دلچسپی سے پوچھا آپ نے کیا جواب لکھا؟ فرمایا۔۔۔ میں نے جواب میں ایک حدیث لکھی جس کا مطلب ہے ۔۔۔ بیکارباتیں چھوڑ دینا اور بیکار بحثوں سے بچنا اچھے اسلام کی نشانی ہے۔

مزید پڑھیں:  الٹے بانس بریلی کو ؟