قبل ازوقت واویلا

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ہمارا مینڈیٹ کم کرنے کی کوشش ہوئی تو مزاحمت کریں گے۔ لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو بلا کر کہا گیا کہ عمران خان کا کوئی مستقبل نہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب کے ہمارے لوگوں کو ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت اور قانون سے بالاتر ہے، حالات تب بہتر ہوں گے جب اسٹیبلشمنٹ قانون کی بالادستی کے لیے کام کرے گی۔عمران خان نے کہا کہ اُمید ہے موجودہ آرمی چیف شفاف انتخاب کروائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جتنی طاقت فوج کے پاس ہے اتنی کسی اور ادارے کے پاس نہیں، فوج مثبت کردار ادا کرے تو ملک کو آگے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔سیاسی جماعتوں میں سیاسی طالع آزمائوں کا اڑان بھرنا کوئی تعجب کی بات نہیں محولہ لوگ قبل ازیں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی پی کر گزشتہ انتخابات میںتحریک انصاف کے پڑائوپرآٹھہرتے تھے لہٰذا اگرواقعی وہ کسی واضح اشارے بلکہ کسی مداخلت اور دبائو کے نتیجے میں سیاسی قبلہ بدلنے پر مجبور کئے جارہے ہیں توایسا ہی ہونا چاہئے اور یہ سیاسی معاملات سے لاتعلقی کے اعلان کی بھی خلاف ورزی ہے اور اگر معمول کی اڑانیں بھری جارہی ہیں توتحریک ا نصاف کو اسے دوسروں سے منسوب کرنے کی بجائے سیاسی طور طریقوں سے بے وفائی کے ان عادی افراد کو رسم وفا نبھانے کا پابند بنانے کی سعی کرتی چاہئے جس طرح مسلم لیگ (ق) کے بعض اہم رہنما تحریک انصاف کی طرف مائل نظرآرہے ہیں اور ماضی میںاسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پرچلنے کااز خود اعتراف کر چکے ہیں وہ بھی اپنی جگہ قابل توجہ ہے اگر وہ تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کا آزادانہ فیصلہ کر سکتے ہیں توپھر دوسروں کوبھی اس کا حق دیا جانا چاہئے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب اسٹیبلشمنٹ کومطعون کیا جارہا ہے اور دوسری جانب آرمی چیف جن کاعام انتخابات سے دور دور کا بھی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ قانونی اور دستوری طورپران کی ذمہ داری ہے ان سے شفاف انتخابات کامطالبہ کیا جارہا ہے جو حیرت کی بات ہے اس طرح کا غیرقانونی مطالبہ کرنے کی بجائے اگرچیف الیکشن کمشنر اورسیاسی جماعتوں سے اس حوالے سے رابطہ کرکے شفافیت کے تقاضوں کوپورا کرنے میں کردارادا کرنے اور ایک یکساں مواقع کے حامل انتخابی میدان پربات چیت کی جائے تو یہ زیادہ مناسب ہوتا۔ ابھی سے انتخابی نتائج بارے تحفظات اورمزاحمت کی دھمکی بلاوجہ کی عدم اعتمادی ہے جس کے اظہارسے ووٹروں پر مثبت نہیں منفی اثر پڑے گا اور وہ بد دل ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند