سندھ کے بلدیاتی انتخابات

لیجئے آخرکار سندھ کے16اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اتوار کو مکمل ہو گیا۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ ان انتخابات سے پہلے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی وفاقی حکومت کی عمارت زمین بوس ہوجائے گی۔ اس دوسرے انتخابی مرحلہ سے قبل ایم کیو ایم کے مختلف الخیال گروپ متحد ہوگئے۔ مصطفی کمال کی پی ایس پی اور فاروق ستار کی بحالی رابطہ کمیٹی کے ایم کیو ایم میں شامل کئے جانے کے وقت تینوں تنظیموں کے رہنمائوں کی تند لب و لہجہ میں کی گئی پریس کانفرنس اور مصطفی کمال کے بعض ذومعنی جملوں سے کراچی اور حیدر آباد کی سیاست کے پرانے رنگ ڈھنگ لوٹ آنے کے اشارے تھے۔ ایم کیو ایم حلقہ بندیوں پر نظرثانی سے کم کوئی بات سننے پر امادہ نہیں تھی اس پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت سے الگ ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اپنے ارکان قومی اسمبلی سے استعفے طلب کرلئے گئے ہیں۔ انتخابی عمل کے آغاز سے چوبیس گھنٹے قبل سندھ کے وزیراعلی اور گورنر میں تین ملاقاتیں ہوئیں۔ پی پی پی کی قیادت دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنے پر آمادہ دیکھائی دی مگر الیکشن کمیشن اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سیاسی خواہشات اور ترجیحات سے مختلف تھے۔ بالآخر اتوار کو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ کا انعقاد ہو ہی گیا۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب پہلے ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین نے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی کچھ دیر بعد ایم کیو ایم نے بھی اتوار کے انتخابی مرحلہ کا بائیکاٹ کردیا۔ اتوار کو سندھ کے 16 اضلاع میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں رائے شماری کا عمل یقینا بائیکاٹ کے ان اعلانات سے متاثر ہوا۔ بائیکاٹ کے حق اور مخالفت میں سیاسی بیان بازی اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کو انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اس میں حصہ لینا چاہیے تھا تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہوتا کہ ایم کیو ایم کا بائیکاٹ اصل میں کسی کی خواہش کا نتیجہ تھا اور خواہش کرنے والے جماعت اسلامی کو پھر کراچی کی بلدیاتی سیاست کی امارت دینا چاہتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے تین دن قبل ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کا یکجا ہونا یقینا اس سوچ کا مظہر تھا کہ تقسیم کا نقصان ہوگا ایسا ہی ہے تو اتحاد کے بعد بائیکاٹ کا فیصلہ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم بانی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل یقینا سمجھ میں آتی ہے ان کا غصہ بجا بھی ہے۔ سیاسی عمل سے جس طرح انہیں نکال باہر کیا گیا اس کے جواب میں وہ 2018 کے انتخابات سے اب تک ہر موقع پر اپنا ردعمل دیتے ہیں۔ الطاف حسین کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان کیا واقعتا اس شکست کی پردہ پوشی کا انتظام تھا جو ان کی اپیل کی بدولت ایم کیو ایم کی قسمت میں لکھی تھی یا واقعی یہ کوئی سنجیدہ سیاسی فیصلہ تھا؟۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ کبھی موسم کی سختیوں اور کبھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے پیدا شدہ صورتحال کے باعث ملتوی ہوا ۔ اختیارات کی تقسیم اور گروہی بالادستی سے بندھی شرائط بھی یقینا مسئلہ رہیں۔ حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کا اعتراض بہرطور اس کا سیاسی موقف ہے اس حوالے سے جو الزام لگایا جارہا ہے ماضی کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایسا ہی الزام ایم کیو ایم پر لگتا رہا کہ اس نے فوجی ڈکٹیٹروں کی سرپرستی میں مرضی کی حلقہ بندیاں بنواکر اپنے سیاسی مخالفین کو نمائندگی کے حق سے محروم رکھا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم کے خیال میں حلقہ بندیاں غیرفطری اور سیاسی عصبیت پر مبنی تھیں تو پی ڈی ایم سے اتحاد کے وقت پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی سے ہونے والے معاہدہ میں اس حوالے سے شق کیوں نہ لکھی گئی؟ اتوار کے روز منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں تلخیوں اور جھگڑوں کے چند اِکا دکا واقعات کے علاوہ پولنگ کا عمل مجموعی طور پر پرامن رہا۔ سینہ زوری اور دھاندلی کے ایک دوسرے پر الزامات تقریباً سبھی نے لگائے پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے انتخابی ضابطہ اخلاق کو جس طرح پامال کیا ان افسوسناک واقعات کی وائرل ہونے والی ویڈیوز کی بنا پر الیکشن کمیشن، پولیس نے کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ان نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی پہلے جماعت اسلامی دوسرے اور پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر ہے کراچی کے علاقے لیاری کی تیرہ میں سے گیارہ نشستیں پیپلز پارٹی کو مل گئیں فی الوقت پی پی پی اورجماعت اسلامی بڑی کامیابی کے دعویدار ہیں۔ پی ٹی آئی کو اپنی شکست کا تحمل کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ 2018 کے انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی 14نشستیں لینے والی تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں تیسری پوزیشن پر ہے۔ پیپلزپارٹی نے ماضی کے مقابلہ میں بہتر پوزیشن حاصل کرلی۔ اسی طرح جماعت اسلامی ایک طویل عرصہ کے بعد ایک بار پھر اپنی سیاسی حیثیت منوانے میں کامیاب رہی۔ کراچی
کے باقی ماندہ 125 حلقوں کے انتخابی نتائج ہی یہ بتائیں گے کہ میئر کا تاج کس جماعت کو ملتا ہے۔ انتخابی عمل میں دھاندلیوں اور سینہ زوری کے مظاہروں کے الزامات سبھی کے یکساں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم بائیکاٹ نہ کرتے تو نتائج مختلف ہوسکتے تھے بہرحال اس کے باوجود اب معاملات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کراچی سے پیپلز پارٹی کے جیتنے والوں کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے اس لئے پی پی پی یا کسی اور پر کراچی سے باہر والے کی پھبتی کسنا غلط ہوگا۔ اڑھائی سے تین کروڑ کی آبادی والے کراچی کا اصل مسئلہ امن و امان، شہری منصوبہ بندی، تعمیر و ترقی اور روزگار ہے۔ نئی بلدیاتی قیادت کے پاس وہی اختیارات ہوں گے جو بلدیاتی ایکٹ کا حصہ ہیں۔ مناسب یہ ہوگا کہ انتخابی عمل میں حصہ لینے والی جماعتیں نتائج کو کھلے دل سے قبول کریں اور بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے کے مضمرات پر ٹھنڈے دل سے غور۔ بائیکاٹ کے مقابلہ میں انتخابی عمل میں شرکت زیادہ بہتر فیصلہ ہوتا۔ اتوار کو سندھ کے16اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ کے حوالے سے پیپلزپارٹی نے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے کچھ شکایات سامنے رکھی ہیں ان سے صرف نظر کی بجائے الیکٹرانک میڈیا مالکان کو سوچنا چاہیے کہ مارشل لا کے جبر میں منفی پروپیگنڈہ ریاستی دبائو کا نتیجہ ہوتا ہے مگر جمہوری دور میں یکطرفہ ٹریفک چلانے سے آزادی صحافت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ دیر آید درست آید بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا۔ الیکشن کمیشن، سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لائق تحسین ہیں کہ بائیکاٹ اور افواہوں سے بنائے گئے مصنوعی خوف کے ماحول میں وہ انتخابات کرانے میں کامیاب رہے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس