سچائی ہی یقین ہے

یہ چابیا ں اندلس میں عربوں کی حکمرانی کی آخری نشانی ہے ، اللہ کی مشیت یہ ہی ہے کہ اب ہما را مال اورجانیں سب آپ کی دسترس میں ہیں یہ کہتے ہوئے سقوط غرنا طہ کے وقت چابیاں فاتح بادشاہ کو دیتے وقت شکست خوردہ حکمر ان کے ہا تھ کا نپ گئے اور چابیا ں ہا تھ سے چھوٹ کر اس کے ہی قدمو ں میں گر پڑیں وہ چابیاں اٹھانے جھکا تو فاتح بادشاہ نے اس کے کندھے پر ہا تھ رکھتے ہوئے کہا کہ نہیں چھوڑدیں وہ خود اٹھا لے گا اور پھر فاتح حکمر ان نے جھک کر اس کے قدمو ں پر پڑی چابیا ں یہ کہتے ہوئے اٹھا لیں کہ الحمر ا ایسی دولت ہے جس کے لیے ہم تمہارے قدمو ں میںجھکنے کے لیے تیار ہیں یہ کسی ڈرامہ کے اسٹیج کا منظر نہیں تھا یہ ایک قوم کے طلوع ہو نے اورایک کے غروب ہو نے کی سچائی تھی ، فاتح بادشاہ فرڈینینداور شکست خوردہ بادشاہ ابو عبداللہ تھا ، فردینینڈ کی چابیا ں اٹھانے کے ساتھ ہی موجودہ اسپین یا ماضی کے مسلم ہسپانیہ اور پرتگال سے مسلما نو ں کی حکمر انی کا سات سو سالہ دور کا خاتمہ ہو گیا ، تاریخ کے اوراق میں ہے کہ پھر ابو عبداللہ الحمر ا کے محل سے نکلا اور غرنا طہ کے دور دارز علا قے میں ایک ٹیلے پر جا بیٹھا اور حسرت بھری نظروں سے غرناطہ کی جانب دیکھتا رہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جس پر اس کی ماں کے منہ سے یہ عبرت نا ک الفاظ نکلے کہ اگر مردوں کی طرح جنگ نہ کرسکے تو عورتوں کی طرح آنسو بہا نے کی ضرورت کیا ۔ ابو عبداللہ کی والدہ کے الفاظ میں مر د اور عورر ت کا استعمال تشبیہ کے طور پر ہے یعنی مر د سے مر اد بہادری اور عورت سے مراد ناقص عقلی ہے ۔سچائی کیا ہوتی ہے ، سچائی یہ ہے کہ عظیم مفکر
ابن رشد کے بارے میںمغرب یہ بات تسلیم کر تا ہے کہ آج مغربی دنیا کو ترقی کا عروج حاصل ہوا ہے وہ ابن رشد کی مرہون منت ہے نیلس منڈیلا جیل کی تاریک کوٹھریو ں میں زندگی کے ستائیس سال اور دس ما ہ اس لیے نچھاور نہیں کردئیے کہ وہ اقتدار کی ہو س رکھتا تھا ، جب وہ جیل سے رہا ہواتو ڈرائیور جیل کے گیٹ پر منتظر تھا ، نیلسن مینڈیلا باہر آکر گاڑی میںسوار ہو ا گا ڑی روانہ ہوئی تھو ڑی دور تک گئی کہ نیلسن منڈیلا نے ڈرائیور سے کہا گاڑی جیل کی طرف موڑ لو واپس جیل آکر وہ نیلسن منڈیلا نے جیل کے ہر اس گورے ملا زم سے جا کر ہا تھ ملایا جنہو ں نے اس سے قید کے دوران انسانیت سوز سلوک کیا تھا اور ان سب سے کہا کہ اس نے سب کو اپنے دل کی گہرائیوں سے معاف کر دیا ، سچائی کی حقیقت یہ ہے کہ منتقم مزاجی بذات خود ایک عبرت ناک انجا م ہے اور معاف کر دینا سب سے بڑا انتقام ہو تا ہے ، چنانچہ ایک مرتبہ نیلس منڈیلا سفر کر رہے تھے راستے میں اپنے اسٹاف کے ہمر اہ کھا نا کھانے ایک ریستوران میں رکے کھانے کی دوران ان کی نظر ایک گورے پر پڑی ، نیلسن منڈیلا نے اپنے اسٹاف کے ممبر کو سرگوشی سے اس گورے کے بارے میں کہا جس پر وہ اسٹاف آفیسر اٹھ کر
گور ے کے پاس گیا اور کہا کہ صدر صاحب آپ کو اپنے ساتھ کھا نے کی دعوت دے رہے ہیں جس پر گور ے پر کپکپی طاری ہو گئی تاہم اسٹاف آفیسر اس کو راضی کر کے لے آیا اسے نیلسن میڈیلا نے اپنے پہلو میں جگہ دی اس کی پیلٹ میں نیلسن مینڈیلا نے خود کھا نا ڈالا اور جب اس نے پانی کے گلا س کی طرف ہاتھ بڑھا یا تو اس سے پہلے کہ اس کا ہا تھ گلا س تک پہنچتا نیلسن منڈیلا نے گلا س اٹھا کر اور اس میں ؛پانی ڈال کر اسے پیش کیا ، جب کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہوئے تو ایک سنیئر افسر نے منڈیلا سے کہا کہ یہ گور ے اب بھی ہمار ی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے وہ گورا کھا نے کے دوران بھی خوف سے کپکپا رہا تھا ، جس پر نیلسن منڈیلا نے بتایا کہ یہ گورا ان کے قید کے دس سال تک ان کی نگر انی پر مامو ر تھا جب ان کو پیا س لگتی تھی اور وہ پانی مانگتا تھا تویہ سلا خوں سے دوسری طرف منہ کر کے اپنا پیشاب گلاس بھر کر مجھ پر پھینک دیا کر تا تھا ، حالا نکہ جیل سے رہائی کے بعد فرداًفرداًان سے مل کر ان کو دل کی گہر ائیوں سے معاف کرنے کاکہہ کر آیا ہوں ، عظمت انسانیت یہ ہو اکرتی ہے ۔خلا فت راشدہ کے بعد کا دور ایسی عظمت سے عار ی نظر آتاہے ، سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان آ س پاس پڑوسی جن میں چین ، کوریا ، ملا یشیا ، انڈونیشیا ، برما ، بنگلہ دیش ، اور بھارت بھی شامل ہیں بلکہ کئی ایسے ممالک ہیں جو پاکستان سے کئی سال بعد آزاد ہوئے وہ ترقی کے اوج پر ہیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھو ں نے خود کو ایک قوم بنایا ان کی لیڈر شپ حقیقی تھی مسلط کر دہ نہیں تھی ، لیڈر شپ میں منتقم مزاجی نہیں تھی ، ہو س اقتدار کی چاہت نہیں تھی ، آئین اور قانون کے دائر ے میںمحیط رہے ہیں اور ہیں ، اقتدار کے لیے قومی اقدار کی دھجیاں نہیں اڑائیں ، آئین اور قانون کی دھجیا ں نہیںبکھریں ، نیلسن منڈیلا کا ایک اور واقعہ بھی جو سبق آمو ز ہے کہ ایک سیمینا ر میں جس میں نیلسن منڈیلاسمیت دنیا کی اہم ترین شخصیات مو جو د تھیں ایک انگریز نے انتہائی تلخ طنز بھرے لہجے میں نیلسن منڈیلا سے کہا کہ ڈالر ہم دیتے ہیں اور تم جا کر یاسر عرفات سے مل گئے ہو ، جس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا پر نیلسن منڈیلا نے انتہائی برد باری اور تحمل سے جو اب دیا کہ ہم تویہ سمجھتے ہیں کہ تم جو امداد کر تے ہو وہ ہما ری خو د مختاری ، خود انحصاری ، جدوجہد آزادی ، ترقی اور جدوجہدآزادی کی بنا پر کرتے ہو ، چنا نچہ یا سرعرفات بھی اپنی قوم کے لیے ہماری طرح ہی جدوجہد کر رہا ہے ، اس کا نظریہ اس کا مشن ہما رے نظر یے ، ہما رے مشن ہی کی طرح ہے ہم دونو ں ایک ہی پلیٹ فارم پر ہیں یہ ہی ہما ری ہم آہنگی ہے ایسے میں ہم اپنے مقاصد سے کیسے روگردانی کرلیں اگر یہ آپ کو قبول نہیں تو امداد نہ کر یں جو امداد کی ہے اگر چاہیں تو وہ واپس کر نے کو تیا ر ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جہا ں ایسی اور اصلی سیا سی قیا دت ہو وہا ں کوئی دھاندلی نہیں ہو تی ، کوئی کرپشن و بدعنو انی نہیں ہو تی ، وہا ں کوئی حقوق پائمال نہیں ہو تے ، وہا ں کوئی جھوٹ نہیں ہو تا سچائی کا راج ہوتا ہے وہا ںکوئی منتقم مزاجی نہیں ہو تی وہا ں کوئی آپے سے باہر نہیں نکلتا ، سب اپنے دائر ہ اختیار میں محیط رہتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے