عہدوں کی بے وقعتی

پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے سابق حکومت کے نامزد ناموں میں سے دو نامزد افراد کانگران حکومت میں نگران وزیراعلیٰ بننے سے انکار حکومتی عہدے کی بے وقعتی سے کہیں زیادہ سیاستدانوں پر عدم اعتماد کامظہر ہے شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میںایک نگران وزیر اعلیٰ پر بے جا الزامات لگائے گئے اور بالاخر بعدازخرابی بسیار اپنے ہی بیان کو سیاسی بیان قرار دے کر غلط بیانی اور بہتان طرازی کا اعتراف کیاگیا نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے کے دوافراد پرسیاستدانوں کا متفق ہونا بہر حال ایک اچھی روایت ہے لیکن جب حکومتی عہدوں کو اتنا بے وقعت کیا جائے کہ کوئی بھی ان کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو تو سوچنا چاہئے کہ ان کی باہمی چپقلش سے بداعتمادی اور غیر یقینی کاکیاعالم ہوگیا ہے ۔سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں ان سے کسی نے رائے نہیں لی اور وہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔دریں اثناء پاکستان مسلم لیگ( ن) نے ناصر کھوسہ سے رابطہ کیا کہ فریقین کی طرف سے متفقہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب بن جائیں تاہم انہوں نے بھی معذرت کر لی۔ ناصر کھوسہ کی قابلیت اصول پسندی اور دیانت داری مسلمہ ہے۔ بحیثیت بیوروکریٹ ان کا کردار قابل فخر ہے۔لیکن انہوں نے بھی حامی نہ بھری ۔ نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے کی انتخابی شفافیت اور انتخابی ماحول و حالات سے براہ راست تو کوئی واسطہ نہیں بنتا لیکن حالات و ماحول کوساز گار رہنے میں ان کے کردار کی اہمیت مسلمہ ہے نگران دور کے عہدوں کے لئے دیانتدار اور غیرجانبدار افراد کا تقرر ہی سیاسی جماعتوں اور عوام کے لئے قابل قبول امر ہونا چاہئے جس کاتقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے تعلقات اور سیاسی ماحول کو کم از کم اس قابل تو بنائیں کہ کوئی شریف آدمی پنکچر لگانے کے الزام سے بے فکر ہو کر عہدہ قبول کرنے پر تو آمادہ ہواورملکی نظام چلانے کی ضرورت پوری ہو ایسا اسی وقت ہی ممکن ہو گا جب بلاوجہ کی الزام تراشی کی بجائے ٹھوس ثبوت کے ساتھ کوئی بات کی جائے یا پھر خواہ مخواہ کسی کی پگڑی اچھالنے سے گریز کیا جائے۔سیاستدانوں کو اس موقع پر جس قسم کے جوابات ملے ہیں اس سے ان کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور آئندہ پہلے تولو پھر بولو کے زرین اصول کا سیاسی بیانات دیتے وقت بھی خیال رکھنا چاہئے تاکہ آئندہ اس قسم کی نوبت نہ آئے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟