وعدہ خلافی کیوں؟

بنوں امن معاہدہ میں انتظامیہ کو دی گئی ایک مہینہ کی مہلت ختم ہو گئی لیکن وعدے اور معاہدے کے باوجود بنوں کے تین مقتول تاجروں کے لواحقین کووعدے کے باوجود پچیس پچیس لاکھ روپے ملے نہ ہی ملازمتیں دی گئیں، ڈویژنل انتظامیہ کی جانب سے ورثاء کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ہاتھوں مذکورہ رقم دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھیلیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔قبل ازیں بھی جانی خیل کے عوام سے مذاکرات میں یقین دہانی اور بدعہدی کے بعد بالآخر معاملہ طے کیا گیا تھا البتہ اس کی وجہ سے عوام اور حکومت و انتظامیہ سبھی کوجن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کا اعادہ وتذکرہ تکلیف دہ امر ہوگا بجائے اس کے کہ ان حالات و واقعات سے عبرت حاصل کی جاتی ایک مرتبہ پھر وعدہ خلافی کی گئی جس کی گنجائش نہیں تھی بہرحال اس سے قطع نظر اسلامی شرعی اوراخلاقی طور پرجب بھی کوئی وعدہ کیا جائے یا معاہدہ ہو تواس پر عملدرآمد متعلقہ فریق کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اگر حکومت ہو تو یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ رعایا سے جو معاہدہ کرے اس کی پوری پوری پابندی کرے اگر اس سطح کی یقین دہانی وعدے اور معاہدے پر عملدرآمد کی یہ صورتحال ہو تو پھر حکومت سے کون معاملت پر تیار ہو گا اور حکومتی وعدوں کی وقعت کیا رہ جائے گی جن عہدیداروں نے معاہدہ کیا تھا ممکن ہے وہ ان سطور کی اشاعت تک عہدوں پر ہوں نہ ہوں لیکن ا ن کے ہونے یا نہ ہونے سے اس لئے فرق نہیں پڑتا کہ یہ معاہدہ بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے کیاگیا تھا جس کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جو بھی نگران وزیر اعلیٰ آئے یاپھر چیف سیکرٹری کو اس عہد نامے کی پابندی کرتے ہوئے وعدہ نبھانا چاہئے تاکہ حکومتی وعدوں اور وعدوں کی وقعت برقرار رہے اور متاثرہ فریق کو اس کا حق ملے اور حکومتی وعدوں کا اعتبار برقرار رہے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں