خوش آمدید

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کو قومی اسمبلی میں واپسی پر خوش آمدید کہا جائے گا وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا بیان ان میڈیا رپورٹس کے بعد سامنے آیا ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اشارہ دیا ہے کہ ان کے اراکین قومی اسمبلی نگران حکومت کی تشکیل کے حوالے سے بات چیت کے لیے ایوان میں واپس جاسکتے ہیں۔وزیرداخلہ نے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہم اسمبلی میں ان کو خوش آمدید کہیں گے یہاں تک کہ جب وہ جارہے تھے تو ہم نے کہا تھا یہ غیرجمہوری فیصلہ ہے۔رانا ثنااللہ نے وفاقی حکومت کے موقف کو دہرایا کہ ملک میں عام انتخابات پانچ سالہ مدت کی تکمیل کے بعد ہوں گے۔دریں اثناء پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں واپسی کے حوالے سے عمران خان کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں واپسی کا فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کو عہدے سے باہر کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے درجنوں اراکین موجود ہیں جنہوں نے گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کی ہدایت پر استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا اور اس وقت ایوان میں راجا ریاض قائد حزب اختلاف ہیں۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان کیا تھا کیونکہ عدم اعتماد کی وجہ سے عمران خان کو وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور ان کی جگہ شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے۔بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے 28جولائی 2022کو پی ٹی آئی کے11 مخصوص اراکین کا استعفیٰ منظور کرلیا تھااگرتحریک انصاف استعفے اور تقریباً سال کے قریب قومی اسمبلی سے باہر رہ کراگر واپسی کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ دوسرا موقع ہوگا جب تحریک انصاف کی استعفوں کی پالیسی لاحاصل رہے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک جانب تحریک انصاف پنجاب اسمبلی تحلیل کروا چکی ہے جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے لئے سمری کا انتظار ہے جس کے بعد اڑتالیس گھنٹوں بعد گورنر کے دستخط کے بغیر خود بخود تحلیل ہو گی ایسے میں سیاسی طور پر دو متضاد فیصلوں پر سوال اٹھنا فطری امر ہے کہ جہاں دوحکومتوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے وہاں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قائد حزب اختلاف بننے کافیصلہ کیوں کر رہے ہیں اور وہ بھی ایک وقت میں جب ان کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے اور ان کو مختلف ایسے مقدمات کا سامنا ہے جس سے ان کی سیاست اور جماعت دونوں ہی خطرات کی زد میں ہیں بہرحال ان معاملات سے قطع نظر اگرسیاسی طورپردیکھا جائے تو دو حکومتوں کو بھینٹ چڑھانا بغیر کسی حکمت عملی اور بنا سوچے سمجھے فیصلہ ہے جبکہ پارلیمان میں واپسی بطور حزب اختلاف کے سیاسی کردار کی ادائیگی سیاسی طور پر مثبت فیصلہ ہے جس کا حکومت نے بھی خیر مقدم کیا ہے جہاں تک قبل از وقت کے انتخابات کا سوال ہے اس بارے پی ٹی ڈی ایم کے قائد نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایسا ممکن نہیں وزیر داخلہ بھی اس امکان کو رد کر چکے ہیں ملکی سیاست اور قوانین میں اس طرح کی گنجائش نکالنے اور انتخابات کو ٹالنے کے طریقے نکالنے کا عمل کوئی پہلا تجربہ نہ ہو گا بلکہ اس کی پوری گنجائش نکالا جانا اچھنبے کی بات نہ ہوگی۔ان تمام عوامل سے قطع نظر تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی احسن قدم ہے اس کی بہرحال اچھی توجیہہ کی ضرورت تھی جیسا کہ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام بنانے کا اعلان قابل قبول بھی ہے اور سمجھ میں آنے والی بات بھی ہے نیز اس فیصلے کا حکومت کی جانب سے خیر مقدم کے بعد مخالف سیاسی جماعتیں بھی اس بارے اس وقت تک ہتھ ہولا رکھیں گی جب تک تحریک انصاف کی ایوان میںعملی طور پر واپسی نہیں ہوتی حکومتی ارکان ان کی واپسی ہی پر ایوان میں ان کا اس طرح کے الفاظ سے استقبال کریں گی جیسا قبل ازیں کیاگیا تھا۔ ہمارے تئیں تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی احسن عمل ہے البتہ اس کے لئے توجیہہ تلاش کرنے کی بجائے اگریہ عمل حکومت سے مذاکرات اور کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ہوتی تو زیادہ پراثر اور عملی ہوتا تحریک انصاف کو واپسی کے فیصلے کے ساتھ اس فیصلے کو سیاسی تقویت کا حامل بنانے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کا مصداق بن جائے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ