زخم زخم کراچی کی مسیحائی

عروس البلاد کراچی کے انتخابات سے حالات ِزمانہ کے ستائے ہوئے اس شہر کو حقیقی قیادت میسر آنے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کی موہوم امید نتائج کے بعد دم توڑتی نظر آرہی ہے ۔ان انتخابات میں سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی ہے جبکہ جماعت اسلامی دوسر ے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے ۔نتائج کی یہ ترتیب بتاتی ہے کہ کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ کوئی واردات ہوئی ہے ۔جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی دونوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کر نے سے انکار کیا ہے ۔جماعت اسلامی نے احتجاج کا راستہ اپنایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا مینڈیٹ چرانے کی اجازت نہیں دے گی ۔نتائج پر عدم اطمینان جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو سیاست کے میدان میں قریب لارہا ہے ۔کراچی سندھ حکومت کے طور طریقوں سے نالاں اور بیزار نظر آتا تھا کیونکہ پندرہ سال سے سندھ کی حکمرانی پر فائز جماعت نے کراچی کے معاملات اور مسائل پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔کراچی نے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو مستر د کرکے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا تھا مگر پی ٹی آئی کی قیادت اپوزیشن میں چلی گئی اور وفاق اور سندھ حکومت اور پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی ہر مقام پر شدید رسہ کشی نے سندھ حکومت کو کراچی سے نظریں چرانے پر مجبور کیا ۔خود پی ٹی آئی کی کراچی کی قیادت فوٹو سیشن اور سوشل میڈیا کے میدان میں ہی خان کے ویژن کے جھنڈے گاڑھتے نظر رہے ۔یہ قیادت زمینی حقائق اور عوام سے کٹی رہی جس کا اعتراف خود عمران خان نے یہ کہہ کر کیا کہ سندھ میں ان کی جماعت کی تنظیم کمزور ہے ۔اس کے برعکس جماعت اسلامی جو پہلے ہی کراچی کی ایک پرانی بڑی اور منظم جماعت ہے نے حافظ نعیم الرحمان کی صورت میں ایک مستقل لیڈر میدان میں کھڑا کئے رکھا ۔حافظ نعیم الرحمان کراچی کے عوام کے ساتھ سردوگرم میں کھڑے رہے اور ایم کیوایم جب رسہ کشی اور باہمی سرپھٹول میں مصروف تھی حافظ نعیم کی قیادت میں جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کو منظم انداز میں اُجاگر کرتی رہی ۔اس لئے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو کراچی میں سب سے ہاٹ فیورٹ سمجھا جا رہا تھا ۔یوں لگ رہا تھا کہ کراچی کی قومی اسمبلی کی اچھی
خاصی نشستوں کی حامل پی ٹی آئی بھی ذہنی اور عملی طور پر جماعت اسلامی کی اس پوزیشن کو قبول کر چکی تھی اسی لئے انہوں نے نیم دلی سے انتخابی مہم چلائی ۔الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی خواہشات کے زیر اثر ہر ممکن طور پر یہ کوشش کی کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکے مگر عدلیہ کے فیصلوں کے آگے چار وناچار سرِتسلیم خم کرنا پڑا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام آخر وقت تک انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار رہے اور یوں پوری طرح انتخابی ماحول بن نہیں سکا ۔اس کے باوجود انتخابات کا انعقاد ہوگیا مگر الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کماحقہ پوری نہیں کر سکا ۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا اس منصب پر فائز رہنا پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے ۔ان میں ایک آزاد منش انسان کی خوُبُو ہی نہیں ۔خداجانے وہ کہاں سے اپنی طاقت کشید کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں سے کئی سوالیہ نشان پیدا ہوتے ہیں جن کاجواب کسی پاس نہیں۔یوں لگتا ہے کہ پی ٹی
آئی بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی بالادستی کو ذہنی طور پر تسلیم کر چکی تھی اور اس میں حافظ نعیم الرحمان کی گزشتہ برسوں کی سیاسی کارکردگی کا گہرا اثر رہا ہے ۔اس کارکردگی کے باعث عوام کو حافظ نعیم الرحمان کی صورت میں ایک اور نعمت اللہ خان کی واپسی دکھائی دیتی ہے ۔اس کامطلب ہوتا ہے کہ زخم زخم شہر کے زخموں پر پھاہا ،مسیحائی اور درماں ۔پیپلزپارٹی کے لئے سب سے بڑی کامیابی موجودہ سیاسی منظر میں یہ اس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ پی ٹی آئی عام انتخابات کی صورت میں دوتہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے ۔کچھ حلقوں میں یہ تاثر خوف کی شکل اختیار کر گیا ہے اور کچھ اسے خوش فہمی کی حد تک حقیقت سمجھتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت مقبولیت کی لہر پر سوار ہیں مگر الیکشن کمیشن اپنے طور پر اور کچھ پراسرا ر کردار چھوٹی جماعتوں اور دھڑوں میں ایم کیو ایم کی طرح نئی جان ڈال دیں تو یہ دونوں حقیقتیں مل کرسب سے بڑی زمینی حقیقت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔عملی طور پر یہ سیاسی انجینئر نگ کامیاب نہ بھی ہو مگر اس وقت کراچی کے انتخابی نتائج کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے ٹویٹر سرکل کو مواد میسر آگیا ۔پلڈاٹ ادارے کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بھی حافظ نعیم الرحمان کی عوام کے اندر ہمہ وقت رہنے یا سندھ حکومت کی کاری گری کی بجائے کراچی کے انتخابات کو اسی نقطے سے ملایا ہے اور حکومتی جماعتیں بھی اسی دلیل کا سہار ا لے رہی ہیں۔الیکشن کمیشن کی مہربانی سے اب کراچی کا الیکشن بھی متنازعہ بن گیا ۔پولنگ سٹیشن پر نتائج کے فارم گیارہ جاری کئے گئے جن میں ایک امیدوار کامیاب تھا تو بعد میں سرکاری نتائج میں اسی امیدوار کو ہرادیا گیا ۔ حافظ نعیم الرحمان اسی واردات کو احتجاج کی بنیاد بنارہے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے حُسن ِ انتظام کا یہی عالم اور انداز رہا تو عام انتخابات کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔کراچی کے عوام کو حافظ نعیم الرحمان جیسی ہمہ وقتی اور انتھک سیاسی شخصیت میئر کی صورت میں چاہئے تاکہ عروس البلاد کو کچرا کنڈی سے دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا یا جا سکے۔ایسی قیادت جو شہر کو اوونر شپ دے اس کے مسائل کو تسلیم کرکے ان کے حل کے لئے جان لڑا دے ۔1998میں برطانوی ہائی کمیشن کی دعوت پر ہم برطانیہ کے مطالعاتی دورے پر تھے تو حافظ نعیم الرحمان یو کے اسلامک مشن کی دعوت پر اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اتفاق سے برطانیہ کا دورہ کررہے تھے اس دوران برطانیہ کے مختلف شہروں میںکے سفر میں ان کے ہم رکاب رہنے کا موقع ملا تھا۔اسی وقت سے ان کی شخصیت میں قائدانہ صلاحیتیں اور مخاطب کو قائل کرنے کا فن نمایاں طور دکھائی دے رہا تھا۔اب کراچی کے عوام کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے بصورت دیگرموجودچیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں عام انتخابات میں کوئی بھی حصہ لینے کو تیار نہیں ہوگا ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں