3 82

نیب اور اٹھارویں ترمیم کے عیب

اطلاعات و نشریات کے نئے وزیر شبلی فراز نے حلف اٹھانے کے پہلے48گھنٹوں میں ہی یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس وزارت کے اہل ہیں اور اس کی بھاری بھرکم ذمہ داریوں کو نبھانے کی صلاحیت سے مالا مال بھی ہیں۔
ان سے منسوب پہلے بیان کا ایک حصہ اٹھارویں ترمیم سے متعلق بھی تھا۔ اس میں ایک اخباری اطلاع کے مطابق انہوں نے اٹھارویں ترمیم کے بارے میں بحث کو بیوقت کی راگنی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ابھی اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ اس بیان کی تردید نہیں آئی لہٰذا ہم اس کو سچ ہی سمجھیں گے۔ لیکن پھر تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی جب وزیر صاحب نے اگلے ہی دن اس ترمیم کو (کرونا) کورونا وائرس کیخلاف کارروائیوں میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے اس کے دوسرے نقائص پر طویل نوحہ خوانی کی۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ اس ترمیم نے صوبائی تعاون میں مشکلات پیدا کی ہیں اور اس کے بعد مرکز کے پاس محض ہدایات جاری کرنے کا اختیار رہ گیا ہے جس پر اکثر عمل درآمد کروانا اس لیے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ یہ صوبوں کی مرضی پر منحصر ہے۔مسئلہ شبلی فراز کے عہدے کی ان ضروریات یا مجبوریوں کا نہیں ہے جس کے تحت پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت مسئلہ اٹھارویں ترمیم کا ہے جو کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی اہمیت کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے، اندر خانے اس ترمیم کو نرم کرنے یا ختم کرنے پر اصرار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ نیب جیسے مقدم ادارے کو چلانے والے مقدس آرڈیننس میں تبدیلی پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے سنجیدہ بات چیت بھی جاری ہے۔
تو اس حد تک شیخ رشید نے سچ ہی کہا کہ دونوں جماعتیں نیب قانون میں ترمیم اور تبدیلی کے عوض اٹھارویں ترمیم پر راضی ہونے کو تیار ہیں لیکن شیخ صاحب شیخ ہونے کے ناطے مکمل سچ بتانے میں روایتی کنجوسی سے کام لے گئے۔ انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ یہ بات چیت ہو کن فریقین کے درمیان رہی ہے؟ اور کون ہے جو اس لین دین سے خوش نہیں ہے؟ اگر آپ اس ان کہے سچ کو جان لیں تو آپ کو شبلی فراز کی 18ویں ترمیم پر الٹی چھلانگ اور شیخ صاحب کی مضطرب مگر نامکمل رپورٹنگ بھی سمجھ میں آ جائے گی۔ قصہ یہ ہے کہ18ویں ترمیم شروع دن سے پنڈی اور آبپارہ میں غیرمقبول تھی مگر یہ اس وقت ایک قابل نفرت دشمن میں تبدیل ہوگئی کہ جب اسحاق ڈار سے لیکر ڈاکٹر حفیظ شیخ تک ہر وزیر خزانہ نے ہاتھ باندھ کر معاشی تنگی کو وجہ بناتے ہوئے یا تو مضبوط دفاع کے ضروری چیکوں پر دستخط کرنے سے معذرت کی اور یا پھر مانگی ہوئی رقوم سے کہیں کم کو مودبانہ و معذرت خوانہ انداز سے مختص کیا۔
اس کے بعد اس ترمیم کی دوسری وحشتیں بھی آشکارہ ہونا شروع ہو گئیں جن میں سے قومی وحدت و یگانگت کو نقصان، مختلف تعلیمی نظاموں کے باعث نظریہ پاکستان کو نقصان اور قومی پلاننگ میں مرکز کی جانب سے جاری کی جانے والی مختلف قسم کی اہم سکیموں کو لاگو کرنے میں پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں، ان میں سے چند ایک کا شبلی فراز نے بھی ذکر کیا اور ساری قوم پر واضح کر دیا کہ وہ کس پیج پر ہیں۔ مگر چونکہ معاملہ آئین میں ترمیم کا ہے اسلئے اس دشمن نامراد یعنی18ویں ترمیم کو شکست دینے کیلئے عام قسم کے داو پیچ کارگر نہیں ہو سکتے۔ مثلاً آپ اس ترمیم کو پانامہ مقدمے میں ملوث نہیں کر سکتے۔ نہ اس کیلئے124دنوں کا دھرنا لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو گمشدہ افراد کی فہرست میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں شامل کروا کر قصہ ختم کیا جا سکتا ہے۔
وقتی مشکل یہ ہے کہ پارلیمان میں دونوں جماعتیں حقیقی قوتوں سے بات چیت کرنے سے پہلے ہی نیب کی طرف سے ہونے والی مسلسل سنگ ریزی کو ختم کرنے کے موضوع کو چھیڑ دیتی ہیں۔ اس کو نبھانا بھی آسان ہوتا مگر نیب چیئرمین اپنے معاملات کے باعث شریف خاندان ہر ‘ہتھ ہولا’ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح وزیر اعظم اور ان کے قریبی رفقا ہر بات ماننے کو تیار ہیں مگر اس وقت کھلے عام شریف پراجیکٹ کو ترک نہیں کرنا چاہتے۔ یہاں پر آ کر مقتدر حلقوں کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔ 18ویں ترمیم اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے اہم معاملات پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے بنانے کیلئے نیب کی کارروائیوں میں نرمی درکار ہے۔ وہ میسر ہونے کیلئے وزیراعظم عمران خان کا ‘احتسابی عمل’ پر خاص اثرو رسوخ ختم کروانا ضروری ہے جس پر وزیراعظم تیار نہیں ہیں مگر جس کے بغیر نیب چیئرمین کا تعاون حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس وقت اس گرہ کو کھولنے کیلئے ایک راستہ نیب کے قانون میں ترمیم کا ہے۔ اگر یہ قانون بدل دیا جائے تو پھر ن لیگ اور پی پی پی سے بات چیت کے دروازے کھل سکتے ہیں، دوسری جماعتوں سے بھی مثبت ردعمل آ سکتا ہے۔ یہاں پر ایک پیچیدگی ضرور ہے کہ عمران خان جو نیب چیئرمین کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں کیسے نیب کے قانون کو اس حد تک تبدیل کرنے پر راضی ہو جائینگے کہ اس کا براہ راست فائدہ ان کے دونوں اہداف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہو۔
اس پر مقتدر حلقوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی چند ایک معاملات پر عمران خان پس و پیش سے کام لے رہے تھے مگر بالآخر ان کو ایک پیج پر ہونے کے فوائد سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد ان کی رائے یکسر تبدیل ہو گئی۔لہٰذا اس وقت نیب کے معاملات کے فریقین اصل میں تین ہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی۔ مقتدر حلقے اور چارو ناچار حکومت وقت کے معاونین جن میں سے وزیرقانون عملاً آزادانہ طور پر ایک اتفاق رائے والا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس پر ان کے آئینی باس یعنی وزیراعظم خوش تو نہیں ہیں لیکن وزیر قانون کو کوئی خاص پریشانی نہیں کیونکہ ان کے اصل باس اس معاملے پر ان کے پیچھے کھڑے ہیں اور اب تو عاصم بھی آ گئے ہیں۔ وزیر اعظم کو اب قومی ضروریات سمجھانے میں مزید آسانی پیدا ہو گی۔

مزید پڑھیں:  قول وفعل کا تضاد