نشان عبرت بنانے کی ضرورت

گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول گلبہار میں چند روز قبل طلبہ بچوں اور اساتذہ پر مبینہ تشدد کے الزام پرگلبہار پولیس سٹیشن کے سب انسپکٹر کو ملازمت سے معطل کرنا راست اقدام ہے۔واضح رہے کہ چند روز قبل طلبہ کے درمیان لڑائی جھگڑے کے بعد گلبہار پولیس سٹیشن کے سب انسپکٹر نے سکول میں گھس کر طلبہ اور اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور ایک ٹیچر کو شدید زخمی کیا تھا اس ضمن میں ابتدائی رپورٹ کے بعد سی سی پی او نے گزشتہ روزمتذکرہ سب انسپکٹر کو پولیس سٹیشن گلبہار سے پولیس لائنز تبدیل کرتے ہوئے ملازمت سے معطل کر دیا ہے اعلامیہ کے مطابق سب انسپکٹر کیخلاف مزید کارروائی شروع کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔پولیس کی وردی کانشہ بڑے بڑوں کا دماغ خراب کرنے کاباعث بنتا ہے ان کا نشہ ہرن کرنے کا احسن طریقہ اس طرح کے عناصر کے خلاف شکایت ملنے پرابتداً کارروائی اوربعدازاں جامع تحقیقات کے بعد قانون کے مطابق جزا و سزا کی کارروائی ہے اس واقعے میں چونکہ پولیس والے کاعمل واضح طور پر خلاف قانون اور وردی پوشی کاغلط استعمال تھاجس پر کارروائی کی گئی ہے ابتدائی سزا تو درست ہے لیکن یہ کافی نہیں بلکہ اس طرح کی کالی بھیڑوں سے پولیس کی جوبدنامی ہوتی ہے اس کاتقاضا ہے کہ ان کے خلاف زیادہ سے زیادہ جس سزا کی قانون میں گنجائش ہو وہ دینی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کی حرکت کے مرتکب ہونے سے قبل سو بار سوچے۔ سکولوں میں طلبہ کے درمیان تکرار اورچھوٹی موٹی لڑائی معمول کی بات ہوتی ہے جواساتذہ موقع پرہی نمٹا دیتے ہیں زیادہ سنگین ہوتو والدین سے رجوع کیا جاتا ہے جو معاملہ رفع دفع کرنے پرباآسانی آمادہ ہوتے ہیں اور حکمت کاتقاضا بھی یہ ہوتا ے کہ خواہ مخواہ کسی جھگڑے کو طول نہ دی جائے خود طالب علم بھی چند دن میں شیر وشکر ہو جاتے ہیں کجا کہ ایک پولیس والا سکول جا کرتشدد کرے اور استاد کوبھی نہ بخشے یہ ایک سنگین عمل اور قانون کی خلاف ورزی ہے جس کے مرتکب کسی نرمی کا مستحق نہیں بلکہ ان کو سخت سزا دے کر دوسروں کے لئے بھی باعث عبرت بنانا چاہئے ۔ پولیس کے اعلیٰ حکام نے اس ضمن میں جو احکامات جاری کئے ہیں وہ قابل اطمینان ہیں جن سے بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک منظم فورش کے نظم وضبط کی خلاف ورزی کرنے والے سے کسی قسم کی نرمی نہیں برتیں گے اور ان کو ان کے کئے کی پوری پوری سزا ضرور دیں گے تاکہ جن طلبہ اور استادپرتشدد کیاگیا ہے ان کی کسی طور تو داد رسی ہو۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟