خبراخبار میں لکھی ہوئی تھی

اب تک تو یہ ہوتا رہا ہے کہ ایک شخص کو زیادہ تین چار حلقوں ہی سے بہ یک وقت انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی تھی ‘ یا پھر ایک دوقومی اسمبلی اور ساتھ ہی صوبائی اسمبلی کے ایک آدھ حلقے میں قسمت آزمائی کرکے نتیجے کا انتظار کیا جاتا لیکن بالآخر صرف کسی ایک ہی حلقے کوفائنل کرکے باقی کے تمام حلقے خالی کر دیتا ‘ جن پر ضمنی انتخابات کرا کے پارلیمنٹ کی تمام نشستیں پر کردی جاتیں’ اگرچہ یہ بھی صرف برصغیر یعنی پاکستان اور بھارت ہی میں ہوتا ہے دنیا کے کسی اورملک میں جمہوری اداروں کے انتخابات کے ساتھ ایسا مذاق دیکھنے کو نہیں ملتا ابتداء ہی سے انتخابی معرکوں کو جھرلو کے ذریعے اپنے حق میں کرنے کی داستانیں بھی جا بجا بکھری ہوئی ہیں ‘ قیام پاکستان کے بعد تو خیبر پختونخوا(سابقہ صوبہ سرحد)کی پارلیمانی سیاست کا جائزہ لیاجائے تو مخالفین کے بیلٹ بکس (تب ہر امیدوار کے اپنے اپنے بیلٹ بکس ہوتے تھے ) تک چوری کرنا ‘ یا پھران کے سیل (پولیس کی نگرانی میں) توڑ کروہاں سے ووٹ چوری کرکے اپنے بکس بھرنا بالکل عام سی بات تھی ‘ اس حوالے سے ایوبی آمریت کے دور میں بنیادی جمہوریتوںکے انتخابات کے دوران پشاور کے ایک حلقے میں جب ایک مرحوم صحافی غالباً چغتائی نام تھا’ کے بیلٹ بکس شام کوخالی پائے گئے توبیچارہ چیختے ہوئے تقریباً رو پڑا اورکہا اور توچھوڑ میرے اپنے گھرکے افراد کے ووٹ کہاں چلے گئے؟ ایوب خان مرحوم نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں مبینہ طور پرایسے بیلٹ پیپرز تیار کروائے جن میں صدارتی امیدواروں کی تعداد چار تھی ‘ اور پہلا نام ایوب خان جبکہ آخری نام مادر ملت کاتھا ‘جب اس بیلٹ پیپر کودوہرا کیا جاتا تو محترمہ فاطمہ جناح کے نام کے آگے لگی چرخی ایک خاص کیمیکل کیوجہ سے ازخود ایوب خان کے نام کے سامنے خانے میں منتقل ہوجاتی ‘ اس کے بعد دھاندلی کامظاہرہ مختلف صورتوں میں تقریباً ہر انتخابات میںسامنے آتا رہا ‘
ضیاء الحق مرحوم نے توجو ریفرنڈم کرایااس کی تو کوئی کل ہی سیدھی نہیں تھی اور صرف ایک سوال پر ہاں لکھنے سے ووٹ خود بخود موصوف کے حق میں چلاجاتا ‘ یعنی عوام سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ ملک میںاسلامی نظام نافذ کرناچاہتے ہیں اب ظاہر ہے کون بدبخت مسلمان ہو گا جو اس کے خلاف ووٹ پول کرتا مگر اس کا عوام نے یہ حشرکیا کہ بمشکل پورے ملک میں دو ڈھائی فیصد عوام نے گھروں سے نکل کرووٹ کی پرچی کو پذیرائی بخشی ہو’ میں اس سارے ”تماشے” کاخود عینی گواہ ہوں کہ اس ریفرنڈم کی کوریج کے لئے پورے ملک
میں ریڈیو ‘ ٹی وی کی ٹیمیں تشکیل کرکے مختلف شہروں میںبھیجی گئی تھیں میری ڈیوٹی مردان میں تھی اورمیری ان گہنگار آنکھوں نے شام پانچ بجے تک مختلف پولنگ سٹیشنوںپرہو کاعالم دیکھا ‘ کہ کوئی گھر سے نکلنے کو تیار ہی نہیں تھا ‘ مگر شام کے بعد ذرائع ابلاغ پر نتائج سناتے ہوئے پولنگ سٹیشنوںکاجونقشہ کھینچا گیا اور بالآخر جس کے نتیجے میں اس وقت کے الیکشن کمیشن نے حتمی نتائج کو 98 فیصد قرار دیا ‘ اس سے بڑا دھاندلہ اس ملک کی سیاسی اور انتخابی حوالے سے کبھی نہیں دیکھاگیا ‘ یعنی بقول یارطرحدار پروفیسر ڈاکٹرنذیر تبسم
خبراخبار میں لکھی ہوئی تھی
مرے ہمسائے میں ڈاکہ پڑا ہے
اس قسم کی ڈاکہ زنی ویسے تو ہماری انتخابی سیاست کا
ہمیشہ ہی سے طرہ امتیاز رہا ہے اور گزشتہ عام انتخابات میںبھی بعض حلقوں میں بیلٹ پیپرز کے ڈبوں کو زبردستی چھین کر بھگا لے جانے کی ویڈیوز تک عام ہوئی ہیں اوراب تازہ ترین سندھ کے بلدیاتی انتخابات میںایک پارٹی کے صوبائی رہنما کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی جس میں موصوف بیلٹ بکس کے سیل توڑتے ہوئے دیکھے گئے ‘ کہنے کامقصد یہ ہے کہ ہماری انتخابی سیاست شروع دن سے ہی دھاندلی سے آلودہ رہی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ‘ اس دوران میں کراچی ‘ حیدرآباد’ سکھر وغیرہ میںایک مخصوص لسانی جماعت کی انوکھی وارداتیں بھی بہت مشہور رہی ہیں ‘ اس جماعت کے سیکٹر کمانڈرز اپنے ”حامیوں” کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں جا کر لوگوں کے شناختی کارڈز زور زبردستی اکٹھے کر لاتے اور ان سے کہتے آپ کو پولنگ سٹیشنوں پرآنے کی زحمت سے بچانے کے لئے یہ کام کیا جارہا ہے ‘ اس کے بعد مبینہ طور پر پولنگ سٹیشنوں پر عملے کو یا تو من مرضی سے ان شناختی کارڈوں پر ووٹ کی پرچیاں جاری کرتے اور ٹھپوں پہ ٹھپہ لگوانے میں سہولت کاری کرتے دیکھا جاتا تھا یاپھر جہاں”مزاحمت” ہوتی ‘ ان کا ” بندوبست ” کرتے ہوئے بیلٹ پیپرز پراپنے امیدوار کے حق میں ٹھپے لگائے چشم فلک دیکھا کرتی تھی ‘ شام کو نہ صرف لوگوں کے شناختی کارڈ واپس بلکہ ساتھ ہی مٹھائی کے ڈبے دیتے ہوئے کہا جاتا ‘ بھائی نے آپ کاشکریہ ادا کرنے کی تلقین کی ہے اور نتیجے میں ہرحلقے میںلاکھوں کی برتری سے نشستیں جیتنے کی خبریں اگلے روزپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن جاتیں ۔یعنی
کچھ تو خزاںہے باعث بربادیٔ چمن
کچھ باغباںکاہاتھ بھی اس میں ضرور ہے
ان تمام معاملات کی کوکھ سے اب ایک ایسی صورتحال نے جنم لیا ہے کہ انتخابی سیاست کی”بے توقیری” نے بھی حدیں پھلانگ دی ہیں اور وہ یوں کے تحریک انصاف کے سربراہ نے پہلے ہی قومی اسمبلی کا ممبر ہوتے ہوئے چند ماہ پہلے سپیکرقومی اسمبلی کی جانب سے بارہ ممبران کے استعفے منظور کرتے ہوئے جب انہیں الیکشن کمیشن سے ڈی نوٹیفائی کروایا توان نشستوں پر ضمنی انتخابات میںصرف ایک ہی امیدوار کے طور پرعمران خان کوانتخاب لڑنے کی اجازت دی پہلے تو اتنی بڑی تعداد میں صرف ایک شخص کوا نتخاب لڑنے کی اجازت دینا ہی سرے سے غلط ہے ‘ اس کا نہ توالیکشن کمیشن اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ نے کوئی نوٹس لیا ‘ خاص طور پرجب الیکشن لڑنے والاپہلے ہی قومی اسمبلی کاممبر اور سابق وزیراعظم تھا ‘ اس سے ہماری پارلیمانی سیاست میںایک نیاپنڈورہ باکس کھل چکا ہے اور اب جبکہ مزید 33افراد کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا ہے تو دستیاب خبرں کے مطابق ان تمام پر(ماسوائے خواتین کی خصوصی نشستوں کے) ایک بار پھرعمرانخان کے
اکیلے یہ بطور امیدوار سامنے آنے کی اطلاعات ہیںحالانکہابھی گزشتہ روزایک بارپھرالیکشن کمیشن نے سابقہ نشستوں پرعمران خان کی کامیابی کانوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا ہے ‘ تواس کے بعد مزید 33 نشستوں پرانتخاب لڑنے کی اجازت کس آئین اورقانون کے تحت دی جائے گی؟پی ڈی ایم نے اگرچہ ان خالی نشستوں پرضمنی انتخابات میںحصہ لینے کو”کارضیاع” قراردیتے ہوئے تعرض کرنے کے بیانات دیئے ہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میںضمنی الیکشن پرجو کروڑوں کے اخراجات اٹھیںگے اس کے لئے کون ذمہ دار ہوگا؟ اس صورتحال نے نبٹنے اورانتخابی سیاست کوکسی ڈھب پر لانے کے لئے اب سپریم کورٹ کو آگے آناچاہئے اورحتمی طور پرفیصلہ صادر کرنا چاہئے کہ ایک شخص زیادہ سے زیادہ دویا تین نشستوں پرہی انتخابی معرکے میں حصہ لے سکتا ہے اور پارلیمان کی اس ”بے توقیری” کو روک لگا دینا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی