عدل و انصاف صرف حشر پر موقوف نہیں

یہ کائنات عدل کی بنیاد پر تخلیق کی گئی ہے ۔ اس میں انسان سے لے کر تمام مخلوقات کی بقاء اس کائنات میں مختلف اشیاء کے توازن کے سبب قائم ہے ۔ گرمی ‘ سردی ‘ دن رات ‘ ہوا پانی ‘چرند پرند ‘ فضا میں اور زمین پر مختلف عناصر الغرض سب ایک توازن کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ ”جب سات آسمان اوپر تلے بنائے ‘ تو رحمن کی اس صنعت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا ‘ تو پھر نگاہ دوڑا کیا تجھے کوئی شگاف دکھائی دیتا ہے ۔ پھر دوبارہ نگاہ کر ‘ تیسری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہو گی”۔
عدل بار برداری کے جانور پر لدے ہوئے دونوں طرف کے برابر بوجھ کوکہتے ہیں جانور پر جب دونوں طرف کا سامان برابر کا لدا ہوا ہو تو سفر بہت ہموار کٹتا ہے ۔ اگر ایک کم اور دوسرا زیادہ ہو تو ظاہر بات ہے کہ جانور اور اس کے مالک دونوں کو تکلیف ہو گی اور سفر بھی ناہموار کٹے گا۔ یہی حال زندگی کا ہے ۔ زندگی کے معاملات میں عدل وانصاف اور توازن ہو ‘ تو زندگی بہت خوشگوار گزرتی ہے لیکن جونہی افراط و تفریط پیدا ہو جائے تو معاملات بگڑنے لگتے ہیں۔ قوموں کی اجتماعی زندگی میں ترقی و خوشحالی کے لئے عدل و انصاف بہت ضروری ہے ۔ اس کے بغیر معاشرے میں فساد و بگاڑ کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔
خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل خشکی اور تری میں عدل و انصاف کے مفقود ہونے کے سبب فساد و بگاڑ برپا ہوچکا تھا ۔ آپۖ کی تشریف کے بعد دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور انسانیت نے سکھ کا سانس لیا۔ خلفائے راشدین نے لاکھوں مربع میل پر مشتمل ریاست میں ایسا نظام زندگی قائم فرمایا جس کی اساس عدل و انصاف پر تھی۔ اس سبب سے مسلمان اس زمانے میں سپر نیشن تھے ۔ پھر جب آہستہ آہستہ ہمارے اجتماعی نظام پر عدل و انصاف
کی گرفت کمزور ہونے لگی تو ہم ذلیل اقوام میں شمار ہونے لگے ۔ آج حد یہ ہے کہ ایک ارب سے زیادہ تعداد میں مسلمان کرہ ارض پر موجود ہیں ۔ ان کے پاس اجتماعی طور پر اربوں کھربوں ڈالر کی جی ڈی پی ہے اور لاکھوں افواج ۔۔۔ لیکن عدل اجتماعی کے نہ ہونے کے سبب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مسلم معاشرے بدترین افراط و تفریط کے شکار ہو چکے ہیں ۔ تیل کی دولت سے مالا مال مسلمان معاشرے اسراف و تبذیر میں مبتلا ہیں اور پاکستان جیسے معاشرے چند بڑے خاندانوں کے سبب زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں۔ اس عدم توازن کے سبب مسلمان معاشروں میں سخت معاشی ‘ سیاسی اور معاشرتی ہیجان برپا ہے جس میں پاکستان اس لحاظ سے سرفہرست ہے ۔آئی ایم ایف کے حصار میں ایسا گرفتار ہوچکا ہے کہ صحیح معنوں میں ”نہ پائے رفتن ‘ نہ جائے ماندن” کا منظر ہے ۔ اسحاق ڈار نے ڈالر کو تو کیانیچے لا کر دوسو روپے کے برابر کرنا تھا ‘ مہنگائی کا وہ طوفان برپا کردیا ہے کہ غریب تو غریب ‘سفید پوشوں کو بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ اس کے باوجود شنید یہ ہے کہ ماسی آئی ایم ایف ‘ ماسی مصیبتے کے مصداق پاکستانی عوام پر مزید مصیبتیں ڈالنے کے لئے فروری میں دو سو ارب کے ٹیکس لگانے کے مطالبے پر بضد ہے ورنہ کوئی ”پیسہ ویسہ نشتہ”۔
پاکستانی عوام اس وقت اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر اربوں کھربوں ڈالر کے قرض لے کر پاکستان اپنے وسائل ہونے کے باوجود پائوں کھڑا کیوں نہیں ہو رہا ۔ سوالوں کا ایک ہی جواب۔۔۔ اس معاشرے سے عدل و انصاف کا نظام کب کا رخصت ہو چکا ہے ۔ حکمران طبقہ اشرافیہ کے ساتھ مل کر بدمعاشیہ بن چکا ہے ۔ جو ہر قسم کے قانون اور عدل و انصاف کے ترازو سے اپنے آپ کو ماوراء سمجھتا ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں امراء کے لئے اور غرباء کے لئے الگ قوانین ہوں۔ اس کے بارے میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل فرمایا تھا کہ ایسے معاشروں کا نجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ ابو تراب نے ا قوام وممالک کی بقاء کا کیا اصول بیان فرمایا ہے (ترجمہ)کافروں کا ملک ”عدل و انصاف” کے ساتھ ترقی کر سکتا ہے لیکن کوئی بھی ملک(خواہ مسلمانوں کا ہی کیوں نہ ہو) ظلم کے نظام کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتا”۔
پاکستانی معاشرے میں عدل و انصاف کی حکمرانی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی اقوام میں ہماری عدلیہ کا ایک سو تیسواں نمبر ہے ۔ لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لئے عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگاتے لگاتے خاک ہو جاتے ہیں لیکن مقدمات ہیں کہ فیصل ہونے میں نہیں آتے ۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ تو ایک بے مثال طرز حکمرانی ہے کہ جمہوری بھی ہے لیکن اپوزیشن کے بغیر۔۔ یہ مثال اس سے پہلے کبھی دنیا میں دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔ اپوزیشن کے اراکین بھی کمال کے لوگ ہیں کہ حکومتی اراکین کے بقول رکن اسمبلی ہونے کے مراعات سے دستبردار نہیں ہوتے ‘ لیکن اسمبلی میں نہیں آتے ۔ اجتماعی استعفے بھی پیش کئے ہیں لیکن موجودہ قومی اسمبلی اسپیکر اپنے آقائوں کے حکم کے مطابق کبھی الگ الگ آنے کا مطالبہ کرکے استعفیٰ قبول کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی ضرورت کے مطابق
گیارہ اور پنتیس ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کر چکے حالانکہ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ بیک جنبش قلم سب ایک ہی وار میں قبول کرکے جھنجھٹ ہی ختم کر ڈالیں لیکن سیاست جو ہوئی۔۔ بس اب سیاستدان سیاست سیاست کھیلیں اور آئی ایم ایف نے خوب تیاری کی ہے کہ پاکستان کو (خدانہ کرے) سری لنکا بنوا کر ہی رہیں گے اور ایک دن مطالبہ آئے گا کہ افواج کی تعداد کم کریں کیونکہ اس پر بہت خرچہ اٹھتا ہے یوں اور آپ ہمارا قرض واپس نہیں کر سکتے ۔دوسرے مرحلے میں ایٹمی صلاحیت کو بھی کیپ کرنے کی بات ہو سکتی ہے اور آخر میں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی تجویز آئے گی ۔۔۔ کہ موجودہ کنٹرول ائن بس اب مستقل سرحد ہی ہو گی اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے