پاکستان کی مؤثر سفارت کاری

پاکستان وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور چین کے سنگم پر واقع ہے، اس لئے یہ مختلف خطوں کے درمیان روابط کے فروغ کا اہم ذریعہ ہے، اس تناظر میں اقتصادی مفادات کو برقرار رکھنا اور صدیوں پرانے تاریخی روابط کو فعال بنانا اشد ضروری ہے، روابط کے فروغ اور مشترکہ مستقبل کے تناظر میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ترقی کے لئے ایک بیش قیمت پلیٹ فارم فراہم کر رہی ہے، یہ منصوبہ دراصل چین کے ساتھ ہماری سدا بہار تذویراتی شراکت داری کا شاہکار ہے، جو علاقائی روابط کے فروغ اور خوشحالی کے علاوہ پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے، دیکھا جائے تو پاکستان کی اس منصوبہ سے وابستہ توقعات بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تجارت کے فروغ کے لئے معاشی مواقع اور روزگار کے امکانات پر مبنی ہیں، کہا جاتا ہے کہ سی پیک پاکستان کے لئے گیم چینجر یا تقدیر بدلنے کا حامل منصوبہ ہے لیکن درحقیقت یہ منصوبہ صرف پاکستان کے لئے ہی اہم نہیں بلکہ پورے خطے کی کایا پلٹ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے دیگر ممالک نے سی پیک کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی، پناہ گزینوں کی آمد اور جھوٹے بیانیوں کے باوجود ہمیشہ افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام کے لئے مشترکہ ذمہ داری پر زور دیا ہے، اس کا یہ دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور دوسرا ایک پرامن اور خوشحال افغانستان خود پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے، اگرچہ پاکستان کے حکام وقتاً فوقتاً یہ مؤقف دوہراتے رہے ہیں کہ افغانستان سے بین الاقومی افواج کا انخلا ء افغانوں کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت کی بنیاد پر ہونا چاہئے لیکن بین الاقوامی افواج نے عجلت میں انخلا مکمل کیا، بہرحال دہائیوں کے تنازع کے بعد یہ افغانستان کے استحکام اور وہاں پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے ایک نادر موقع ہے، اس لئے ضروری ہے کہ عالمی نظام کے تحت افغانستان میں انسانی اور معاشی بحران کے حل میں مدد کے لئے کوششوں کو تیز کیا جائے، پاکستان تواتر سے افغانستان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم، انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنے سے متعلق عالمی برادری کی توقعات کا مثبت ردعمل دینے کی ضرورت کا اظہار کرتا رہا ہے کیونکہ قریب ترین پڑوسی ہونے کی حیثیت سے پاکستان افغانستان سے لاتعلق رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
خطے میں پاکستان نے ہمیشہ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا سمیت تمام ملکوںکے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے، اس نے باہمی اعتماد، خودمختاری اور برابری کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کی سعی کی، ضرورت اس امر کی ہے کہ سارک کی سرگرمیوں کی راہ میں حائل مصنوعی رکاوٹوں کو دور کیا جائے کیونکہ یہ تنظیم علاقائی امن اور تعاون پر مبنی تعلقات کے لئے انتہائی اہم فورم ہے، اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات اس وقت ناہموار ہیں، لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کے لئے یہ تعلقات اہمیت کے حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اب امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششوں کا نئے سرے سے آغاز کیا ہے تاکہ باہمی احترام پر مبنی وسیع البنیاد تعلقات کے فروغ کے مقصد ساتھ اعتمادکے فقدان کو بھی دورکیا جا ئے، پاکستان مشترکہ، دوطرفہ اور علاقائی اہداف کے حصول کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، پاکستان کا سب کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ اقتصادی اور ترقیاتی تعاون کا خیرمقدم کرے گا، پاکستان امداد نہیں، تجارت کی بات کر رہا ہے، وہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اس کے ساتھ روابط کو دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے، پاکستان صرف انہی فورمز میں شامل ہوگا جو اس کے سیاسی اور سکیورٹی مفادات کو فروغ دیں۔
مزید برآں پاکستان نے ہمیشہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے اور ان کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے، اس نے کسی ایک کی ہمیشہ طرف داری سے گریز کیا اور کسی بھی تنازع میں فریق نہیں بنا، پاکستان نے سعودی عرب، انڈونیشیا، ملائیشیا، ایران، ترکیہ، متحدہ عرب امارات اور دوسرے تمام ممالک کے ساتھ وسیع البنیاد تعاون قائم کیا ہے، جس سے ان تمام ممالک کے ساتھ دوستی کا نیا جذبہ پروان چڑھا، اسی طرح ہمارے ایران کے ساتھ بھی تاریخی، گہرے روحانی اور ثقافتی تعلقات ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو اقتصادی، توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور روابط کے فروغ کے لئے بروئے کار لائے۔
گزشتہ چند برسوں میں افریقی ممالک تک پاکستان کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے، افریقی ملکوں میں پانچ نئے سفارتی مشنز کھولے گئے ہیں، افریقی ممالک کے ساتھ یہ تعلقات مشترکہ اہداف کے حصول اور امن کے فروغ کے لئے قائم کئے گئے ہیں، پاکستان نے کئی افریقی ممالک کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے، وہ گزشتہ 70 سال سے اقوام متحدہ کے امن مشنوں کے ذریعے افریقی ممالک میں قیام امن کی کوششوں میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان کے آسیان، یورپی یونین اور دوسرے بلاکس کے ساتھ بھی فعال تعلقات ہیں۔
پاکستان علاقائی امن کا بڑا داعی ہے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ، اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او)، سارک اور شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) جیسی علاقائی تنظیموں کی رکنیت اور ان میں فعال کردار اس کا ثبوت ہے، پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کی صدارت بھی کی جس سے علاقائی اور عالمی سطح پر اس کے وقار اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے، وہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کے لئے بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ مؤثر اور جمہوری ادارہ بنانے کا خواہش مند ہے۔
چونکہ پاکستان دنیا کے تمام ممالک کے درمیان پرامن تعاون کے فروغ کا خواہش مند ہے، چنانچہ اس تناظر میں اس کی اقتصادی سفارت کاری کے نتیجے میں یقیناً دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی، بنیادی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور خوشحال، باہمی اقتصادی ترقی، امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے، ہمیں یہ ادراک کرنا ہوگا کہ دنیا ہمارے پاس نہیں آئے گی بلکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنا پیغام باقی دنیا تک باوقار اور بھرپور انداز میں پہنچانے کے لئے سفارتی کوششوں کو تیز کریں، بلاشبہ پاکستان نہ صرف خارجہ پالیسی کے چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لئے پر عزم ہے بلکہ وہ عالمی منظر نامے میں اہم کردار بھی ادا کر رہا ہے۔
(بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد